افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں نماز جمعہ کے دوران ہونے والے خود کش حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم ‘داعش’ نے قبول کر لی ہے۔
داعش کے افغانستان میں موجود شدت پسند خود کو داعش خراسان قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا ایپلی کیشن ٹیلی گرام پر ایک چینل میں دعویٰ کیا ہے کہ قندھار کی مسجد میں ایک نہیں دو خود کش حملے کیے گئے۔ حملہ آوروں کا تعلق داعش خراسان سے تھا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے مقرر کردہ حکام کا کہنا ہے کہ قندھار میں اہلِ تشیع کی مسجد میں جمعے کی نماز میں کیے گئے خود کش حملوں میں 47 افراد ہلاک جب کہ 70 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
طالبان نے اس حملے میں ملوث افراد کو جلد کیفرکردار تک پہنچانے کا دعویٰ کیا ہے۔
#غبرګون:اسلامي امارت کندهار کې په یو مسجد کې په ملکي هیوادوالو باندې وحشیانه چاودنه غندي، لوی جنایت یې بولي او امنیتي ځواکونو ته هدایت کوي، چې د دغسي پیښتو عاملین هرڅه ژر پیدا کړي او د شریعت منګولو ته یې وسپاري.دغه راز اسلامي امارت دقربانیانو له کورنیو سره ژوره خواخوږي څرګندوي.
— Zabihullah (..ذبـــــیح الله م ) (@Zabehulah_M33) October 15, 2021
عینی شاہدین نے ذرائع ابلاغ کے مختلف اداروں کو بتایا تھا کہ حملہ آوروں کی تعداد ایک سے زائد تھی۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق ایک عینی شاہد کا کہنا تھا کہ وہ مسجد کے اندر موجود تھا اور اس نے مسجد کے اندر اور باہر دو دو دھماکے سنے۔
جب کہ ایک اور عینی شاہد مرتضٰی نے، جو کہ مسجد کی حفاظت پر مامور تھا، بتایا کہ اس نے ایک حملہ آور کو مسجد کے اندر اور ایک کو باہر دیکھا تھا۔
مرتضٰی کے مطابق ایک اور مشتبہ حملہ آور کو سیکیورٹی اہل کار نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
خبر رساں ادارے ‘رائٹرز’ کے مطابق مسجد کے امام سردار محمد زیدی کا کہنا تھا کہ مسجد پر حملہ کرنے والوں کی تعداد چار تھی جن میں سے دو مسجد کے باہر اور دو مسجد کے اندر تھے۔
اقوامِ متحدہ اور امریکہ کی مذمت
دوسری طرف اقوامِ متحدہ نے اہلِ تشیع کی مسجد پر ہونے والے ان حملوں کی مذمت کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے افغانستان میں موجود مشن کا ایک میں کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
"The perpetrators of this latest crime against civilians exercising their right to freely practice their religion must be brought to justice."-- @antonioguterres condemns despicable attack on mosque in Kandahar City, Afghanistan.https://t.co/vdIoqn7psI
— United Nations (@UN) October 16, 2021
امریکہ نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔
امریکہ کے محکمۂ خراجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکہ قندھار میں اہلِ تشیع کی مسجد پر ہونے والے حملے کی مذمت کرتا ہے۔
We strongly condemn the attack on a Shia mosque in Kandahar today, the third such attack this month, and offer our condolences to the victims and their families. The Afghan people have the right to live and worship in peace and safety whichever religion or belief they choose.
— Ned Price (@StateDeptSpox) October 15, 2021
انہوں نے ہلاک شدگان کے اہلِ خانہ سے بھی تعزیت کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کے عوام کو امن ق حفاظت کے ساتھ رہنے کا حق ہے۔ جب کہ ان کو اپنے عقائد کے مطابق عبادت کا حق بھی حاصل ہے۔
واضح رہے کہ یہ دھماکے نماز جمعہ کے دوران اہلِ تشیع کی ایک مسجد میں کیے گئے تھے جمعے کے دن نماز کے اجتماع میں عمومی طور پر لوگ زیادہ تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔
دھماکوں کے بعد سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مسجد کے اندر زخمی پڑے ہیں جب کہ بعض نمازی زخمیوں کو ریسکیو کر رہے ہیں۔
اس سے ایک ہفتہ قبل بھی افغان شہر قندوز میں نماز جمعہ کے دوران حملے کیے گئے تھے۔ جس میں 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس دھماکے کی ذمہ داری بھی داعش خراسان نے قبول کی تھی۔
طالبان کے نائب وزیرِ اطلاعات ذبیح اللہ مجاہد نے رواں ہفتے کے آغاز میں وائس آف امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں تردید کی تھی کہ داعش کے متعدد حملوں کے باوجود وہ ایک سنجیدہ خطرہ نہیں ہے۔
ذبیح اللہ مجاہد کی والدہ کا انتقال گزشتہ ماہ ہوا تھا اس حوالے سے تعزیتی اجتماع دارالحکومت کابل میں ایک مسجد میں رکھا گیا تھا۔ اس مسجد کے باہر بھی بم حملہ کیا گیا تھا جس کا ذمہ دار داعش کو قرار دیا گیا تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ داعش صرف اس وجہ سے حملے کرنے میں کامیاب ہو رہی ہے کیوں کہ جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو انہوں نے جیلوں سے قیدیوں کو رہا کر دیا تھا جن میں داعش کے حامی بھی شامل تھے۔
رواں سال 15 اگست کے بعد، جب طالبان نے دارالحکومت کابل پر قبضہ کیا تھا، جمعے کو کیا جانے والا دھماکہ چوتھا بڑا حملہ تھا۔
اس سے قبل داعش نے کابل ایئر پورٹ پر کیے جانے والے حملے کی بھی ذمہ داری قبول کی تھی جب ہزاروں افغان شہری ملک سے باہر جانے کے لیے ایئر پورٹ پر موجود تھے۔
اس حملے میں لگ بھگ 150 سے زائد افغان شہری اور 13 امریکی فوج ہلاک ہوئے تھے۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ اور ’رائٹرز‘ سے مواد شامل کیا گیا ہے۔