اسلام آباد میں قیام امن کے لیے فوج طلب

فیض آباد میں دھرنا ختم کرانے کے لیے فورسز کا ایکشن، 25 نومبر 2017

دھرنے کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے بعد کی صورتحال کے پیشِ نظر حکومت نے تمام پرائیویٹ ٹیلی ویژن (ٹی وی) نیوز چینلز کو عارضی طور پر بند کرردیا ہے۔

علی رانا

سیکیورٹی فورسز کو تحریک لیبک کے زیرقبضہ فیض آباد کو خالی کرانے میں ناکامی کے سامنے کے بعد اسلام آباد میں قیام امن کے لیے فوج طلب کر لی گئی ہے۔ وفاقی وزارت داخلہ نے اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کر دیاہے۔

اب تک کی رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی فورسز اور مظاہریں کے درمیان جھڑپوں میں 150 سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ گرفتار مظاہرین کی تعداد دو سو سے تجاوز کرگئی۔

فوج طلب کرنے کا نوٹیفیکیشن

مظاہرین نے پولیس کی بارہ گاڑیاں، متعدد موٹرسائیکل نذرآتش کردی۔ متعدد ٹی وی چینلز کی گاڑیوں کو توڑ دیا گیا جبکہ سماء ٹی وی کی وین کو جلا یا گیا اور صحافیوں کو تشدد کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

فیض آباد میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کا سلسلہ وقفے وففے سے جاری ہے۔

پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے حکومت اور مظاہرین کو تحمل کے ساتھ معاملات حل کرنے کی تجویز پیش کردی۔وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے دعویٰ کیا ہے کہ اسلام آباد دھرنے میں موجود مذہبی جماعتوں نے بھارت سے رابطہ کیا ہے جس کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

دھرنے کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے بعد کی صورتحال کے پیشِ نظر حکومت نے تمام پرائیویٹ ٹیلی ویژن (ٹی وی) نیوز چینلز کو عارضی طور پر بند کرردیا ہے۔

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دھرنا ختم کرانے کے لیے آپریشن صبح سات بجے شروع کیا گیا جس میں اٹھ ہزار سیکیورٹی اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ فیض آباد اس وقت میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ ابتک جھڑپوں میں 150 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ہیں جن میں ستر سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔

سیکورٹی اہلکاروں نے فیض آباد میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیاں چلائیں، آنسو گیس کی شیلنگ کی اور واٹر کینن کا استعمال کرتے ہوئے پیش قدمی کی تو مظاہرین نے سامنے سے پتھراؤ شروع کردیا۔ تاہم پولیس کی پیش قدمی جاری رہی اور انہوں نے مظاہرین کے قریب پہنچ کر ان پر لاٹھی چارج شروع کردیا اس کے بعد راولپنڈی کے دیگر علاقوں سے مظاہرین کی ایک بڑی تعداد امڈ آئی اور سیکیورٹی فورسز کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔

مشتعل مظاہرین نے سابق وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کے گھر کا گیٹ توڑ دیا ہے جبکہ وزیر داخلہ کے گھر سے نکلنے والی بکتر بند گاڑی پر پتھراؤ بھی کیا گیا، تاہم بکتر بند کی جانب سے کی جانے والی شیلنگ کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے ہیں۔

اسلام آباد کے علاقے آئی ایٹ فور میں آپریشن کے دوران مظاہرین کے پتھراؤ سے ایک پولیس اہلکار شہید ہوگیا، جس کے سر پر چوٹ آئی تھی۔

مظاہرین نے مری روڈ کا بڑا علاقہ قبضے میں لیا ہوا ہے جبکہ پولیس کی بارہ گاڑیاں نذرآتش جبکہ سما ٹی وی کی ڈی ایس این جی کو جلا دیا ہے۔ مظاہرین کی جانب سے صحافیوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ متعدد ٹی وی چینلز کی گاڑیوں کو نقصان بھی پہنچا ہے۔

وفاقی دارلحکومت میں بارہ اہم مقامات پر مذہبی جماعت کا احتجاج جاری ہے اور نظام زندگی مفلوج ہوکررہ گیا ہے۔

جڑواں شہروں کے اسپتالوں میں ہنگامی حالت نافذ ہے۔ تمام تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز بند ہیں۔ ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہنگامہ حالت نافذ ہے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ٹیلی فون کیا ہے جس میں انہوں نے اسلام آباد دھرنے کے معاملے کو پر امن انداز سے حل کرنے کی تجویز دی ہے۔

آرمی چیف نے وزیراعظم سے بات چیت میں کہا کہ دونوں جانب سے تشدد سے گریز کریں کیونکہ موجودہ صورتحال قومی مفاد اور ہم آہنگی کے خلاف ہے۔

سرکاری نیوز چینل پی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مظاہرین سازش کرنے والوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں، ان کے پاس ایسی معلومات اور ایسے وسائل موجود ہیں جو ریاست کے خلاف استعمال ہو تے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مظاہرین نے بھی (پولیس پر) آنسو گیس شیل فائر کیے جبکہ دھرنے کی نگرانی کرنے والے کیمروں کی فائبر آپٹک بھی کاٹ دی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دھرنے والے ختمِ نبوت کے قانون کا نام استعمال کر کے اپنی سیاست کر رہے ہیں جبکہ اس معاملے میں ایسا کچھ بھی موجود نہیں جس کی وجہ سے مظاہرے کیے جائیں جبکہ ختم نبوت کا قانون پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکا ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’ملک میں انتشار پھیلانے میں ایک جماعت ملوث ہورہی ہے عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ ملک میں بدامنی کی سازش سے دور رہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت مذاکرات کے لیے ہر وقت تیار ہیں تاہم دھرنے کی جگہ کلیئر کرانا حکومت کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے اور حکومت اور انتظامیہ عدالتی فیصلوں کی پاسداری کرتے ہوئے آپریشن کر رہی ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ نے مظاہرین کے خلاف آپریشن کے فیصلے کے حوالے سے کہا کہ دھرنے والوں کے خلاف صبر کا مظاہرہ کیا گیا تاہم عدالتی احکامات کی روشنی میں آپریشن کا آغاز کیا گیا۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)نے بھی تمام نیوز چینلز کو آف ائیر کرکے نشریات بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

تاہم اب ملک کے مختلف شہروں میں فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹرسمیت تمام سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس بند ہونا شروع ہوگئی ہیں۔

اسلام آباد میں 20 روز سے مذہبی جماعتوں کا دھرنا جاری تھا اور مظاہرین الیکشن کے کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت سے متعلق ترمیم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے تھے۔ دھرنے کی وجہ سے اسلام آباد اور راولپنڈی کے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ انتظامیہ نے مظاہرین کو دھرنا ختم کرنے کے لیے آج صبح 7 بجے تک کی ڈیڈ لائن دی تھی جو ختم ہونے پر آپریشن کیا گیا۔

اس سے قبل سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے متعدد بار دھرنا ختم کرنے کے احکامات جاری کیے تھے تاہم احتجاج ختم نہیں کیا گیا۔ دھرنا ختم کرنے کے لیے حکومت نے اس سے پہلے دو بار ڈیڈلائن دی تھی تاہم دھرنا ختم نہیں کیا گیا جس پر

انتظامیہ نے آج صبح 7 بجے تک کی تیسری اور آخری وارننگ دی گئی تھی جو گزرنے پر آپریشن شروع کردیا گیا۔