داعش کی صعوبت گاہیں، یرغمالیوں کی دلخراش داستان

وڈیو میں خصوصی فوجیں یرغمالیوں کو چھڑاتے ہوئے

کُردستان کی علاقائی سکیورٹی کونسل (کے آر ایس سی) نے پیر کے روز ایک وڈیو جاری کیا ہے جس میں رہائی پانے والے 69 سنی عرب یرغمالیوں میں سے 10 نے اذیت ناک قید و صعوبت کی دلخراش داستانیں سنائی ہیں

عراق میں داعش کے شدت پسندوں کی قید میں پھنسے متعدد یرغمالی، جنھیں گذشتہ ہفتے امریکی اور کُرد کمانڈوز نے رہائی دلائی، کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ کے ہاتھوں آئے روز اُنھیں اذیت اور پھانسی کے حربے جھیلنے پڑتے تھے۔

کُردستان کی ریجنل سکیورٹی کونسل (کے آر ایس سی) نے پیر کے روز ایک وڈیو جاری کیا ہے جس میں رہائی پانے والے 69 سنی عرب یرغمالیوں میں سے 10 نے اذیت ناک قید و صعوبت کی دلخراش داستانیں سنائی ہیں۔

سعد خلف الفراج ایک پولیس اہل کار ہیں جن کا تعلق کرکوک سے ہے۔ بقول اُن کے، ’داعش نے اذیت پہنچانے کے تمام حربے استعمال کیے، جِن میں بجلی کے جھٹکے، منہ پر پلاسٹک کے تھیلے باندھ دینا، اور کیبل یا لکڑی سے پیٹنا شامل تھا۔۔ یہ ایسے اذیت ناک حربے تھے جو اب تک کسی نے شاید ہی جھیلے ہوں‘۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ کی جانب سے یرغمالیوں کو پھانسی دینے کا خدشہ ہی تھا، جس کے باعث امریکی اور کُرد پیشمرگہ نے داعش کے صعوبت خانے پر چھاپہ مارا۔ حملے میں، ایک امریکی فوجی اہل کار ہلاک ہوا۔

یرغمالیوں میں عراقی سکیورٹی فورس کے اہل کار بھی شامل تھے، جنھیں مغربی کرکوک کے ہویجہ قید سے رہا کرایا گیا۔

ایسے میں جب ’وائس آف امریکہ‘ غیرجانبدار ذرائع سے حقائق کی تصدیق نہیں کر پایا، عمومی طور پر، اُن کی روداد کا تعلق اُن کہانیوں سے ہے جو یرغمالیوں نے امریکی فوج اور کُرد حکام کو بتائیں۔

فرج نے بتایا کہ داعش کے قیدخانے میں شدت پسندوں نے اُن کے بھائی کا سر قلم کیا، اور یہ کہ اگر کرد اور امریکی افواج نے اُن کی مدد نہ کی ہوتی تو وہ اُنھیں بھی پھانسی دے چکے ہوتے۔

کُرد حکام کے جانب سے جاری ہونے والی ایک وڈیو رپورٹ میں، اُن کا کہنا تھا کہ، ’جس رات ہمیں رہا کرایا گیا، وہ (داعش کے دہشت گرد) میری طرف اور دیگر یرغمالیوں کی جانب آئے‘۔ اُنھوں نے بتایا کہ،’تمہیں کل صبح پھانسی دے دی جائے گی۔ اور کہا کہ تم اپنے اہل خانہ کو الوداعی خطوط لکھ دو‘۔

اُنھوں نےبتایا کہ، ’صبح ایک بج کر 30 منٹ پر، میں نے خط تحریر کیا۔ اور صبح پورے دو بجے، کردستان علاقے کی انسدادِ دہشت گردی کی فوجیں اور امریکی اسپیشل فورسز داخل ہوئیں اور داعش کے دہشت گردوں سے ہماری جان چھڑائی‘۔

کردستان ریجنل سکیورٹی کونسل (کے آر ایس سی) نے بتایا کہ اس کارروائی کے دوران داعش کے چھ شدت پسندوں کو حراست میں لیا گیا جب کہ 20 کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

وڈیو میں انٹرویو دینے والے یرغمالیوں نے بتایا کہ داعش کے شدت پسند اکثر نقلی پھانسی دینے کا ماحول بھی رچایا کرتے تھے۔

یرغمالی، اکرم حسین محمد ظاہر کا تعلق ہویجہ سے ہے۔ بقول اُن کے، ’ہمیں روزانہ اذیت دی جاتی تھی۔ مجھے ٹکٹکی پر لٹکایا گیا۔۔اُنھوں نے مجھ سے کہا دیا تھا سمجھو کہ تم مر چکے ہو۔ اُنھوں نے میرے سر پر پستول رکھا اور کہا کہ شہادت کا کلمہ پڑھو، ورنہ ہم تمہیں ابھی ہلاک کیے دیتے ہیں‘۔

ایک اور یرغمالی، محمد عبدالجبوری، جن کا تعلق بھی ہویجہ سے ہے۔ وہ پانچ بچوں کے والد ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ داعش کے شدت پسند گروہ مین بھرتی کے عوض کھانے اور روزگار کی فراہمی کی لالچ دی۔

اُنھوں نے بتایا کہ، ڈیڑہ سال تک، میرے پاس نہ پیسے تھے نہ کوئی روزگار۔ ’میں نے کہا میں بھوکا ہوں‘۔ اُنھوں نے کہا کہ ’آؤ اور حلف اٹھاؤ اور لادینوں کو قتل کرو۔ ہم تمہیں 60000 عراقی دینار دیں گے، جب کہ گیس، تیل اور دیگر فوائد اس کے علاوہ ہوں گے۔

تاہم، جبوری نے کہا کہ اُنھوں نے داعش کے مسلک کے اسلام کو مسترد کرتے ہوئے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے سے انکار کیا۔ اِسی انکار کی پاداش میں، اُنھیں داعش کی جیل میں ڈال دیا گیا۔

اُنھوں نے پوچھا،’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اپنے ہی مسلمان بھائی کو ہلاک کردوں؟ کیا پتا وہ بچوں والا ہو؟‘

ماضی کے ایک اور یرغمالی، احمد محمود مصطفیٰ نے، جنھیں دولت اسلامیہ پانچ بار گرفتار کر چکی ہے، بتایا کہ داعش کے قیدخانے اذیت ناک ہوتے ہیں۔

بقول اُن کے، داعش والے ہمیں تفتیش کے بہانے لے جایا کرتے تھے۔ وہ ہماری آنکھوں پر پٹیاں ڈال دیتےاور ہاتھ باندھ دیتے تھے۔ جو پہلا کام کرتے تھے وہ تھا ہمارے اوپر پانی انڈیلنا۔ پھر وہ ہمیں بجلی کے جھٹکے دیتے۔ وہ ہم سے کچھ نہ کچھ اگلوا کر دم لیتے تھے۔ وہ ہم سے پوچھتے کہ تمہارا تعلق کس گروپ سے ہے۔ اگر آپ سچ نہیں بولیں تو وہ اذیت کے حربے جاری رکھتے‘۔

اُنھوں نے بتایا کہ ’لیکن، اگر آپ اعتراف کردیں تو پھانسی آپ کا مقدر بن چکی۔ ہم اُن کی اذیت اور تکلیف برداشت کرتے۔ وہ ہمارے منہ پر تھیلا ڈالے رکھتے جب تک ہم بے ہوش نہ ہوجائیں۔ پھر وہ بجلی کے جھٹکے دے کر ہمیں بیدار کردتے۔ وہ پھر وہی سوال ہراتے۔ اور اب بھی آپ اُن کے سوال کا جواب نہ دیں تو پھر وہ وہی حربہ بار بار دہراتے‘۔

یرغمالیوں کے بارے میں اُنھوں بتایا کہ ’میں اور میرے بھائیوں نے اذیت اور تکلیف کے تمام ڈھنگ اور روپ دیکھے۔ ہر روز وہ ہم سے سے چار، پانچ یا چھ قیدیوں کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے جاتے؛ اور پھر ہم گولیاں چلنے کی آوازیں سنتے‘۔

وڈیو میں لیے گئے انٹرویو میں یرغمالیوں نے بتایا کہ اُنھیں یقین ہے کہ اگر فوج اُن کی مدد کو نہ آتی تو اب تک وہ ہلاک ہوچکے ہوتے۔