افغانستان میں اسلامک اسٹیٹ کی شاخ داعش خراسان نے پیر کے روز پاکستان افغانستان سرحد کے نزدیک باجوڑ میں جمیعتِ علمائے اسلام (ف) کے انتخابی اجتماع پر خودکش حملے کی ذمےداری قبول کر لی ہے۔
اس حملے میں 54 افراد ہلاک اور کم از کم 120زخمی ہو گئے تھے۔ اسے حالیہ برسوں میں خطے میں ہونے والے بد ترین حملوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ سیکریٹری جنرل نے پاکستانی حکام سے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
داعش خراسان نے اپنی ویب سائٹ ’اعماق‘ پر جاری دعویٰ میں کہا ہے کہ حملہ آور نے خود کش جیکٹ کے ذریعے دھماکہ کیا اور یہ کہ حملہ تنظیم کی جمہوریت کی ان شکلوں کے خلاف جنگ کا حصہ ہے جن کو وہ اسلام کے خلاف تصور کرتے ہیں۔
پیر کو ہی خیبر پختونخواہ کے ضلع باجوڑ میں جمیعتِ علمائے اسلام پارٹی فضل الرحمان گروپ کے سیاسی اجتماع پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تدفین کی جاتی رہی۔ ہلاک ہونے والوں میں کم از کم پانچ بچے بھی ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کم از کم ایک ہزار لوگ اس مقام پر موجود تھے۔
مقامی رہائشی محمد خان نے بتایا کہ لوگ سیاسی جماعت کے لیڈروں کے پنڈال میں پہنچنے پر اللہ اکبر کے نعرے لگا رہے تھے۔ وہ ٹینٹ کے باہر کھڑے تھے دھماکہ ہوا اور لوگ چیخ و پکار کرنے لگے۔
فوراً ہی ایمبولینسز پہنچنا شروع ہو گئیں اور زخمیوں کو ہسپتال پہنچانے لگیں۔
پولیس کی ابتدائی چھان بین میں شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ حملے کا ذمے دار داعش خراسان گروپ ہے۔ یہ گروپ افغانستان کے ننگر ہار صوبے میں موجود ہے اور افغان طالبان کا مخالف ہے۔
پیر کے روز پولیس نے خار کے ہسپتال میں زخمیوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے۔بعض کم زخمی افراد کو گھر بھیج دیا گیا جبکہ بعض شدید زخمی مریض فوجی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے پشاور پہنچائے گئے۔
پاکستان میں تحریکِ طالبان پاکستان نے اس دھماکے سے لاتعلقی کا اعلان کیا ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے،" ایسے جرائم کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔"
بم کا یہ خودکش حملہ چینی نائب صدر ہی لی فنگ کے اسلام آباد پہنچنے سے گھنٹوں پہلے کیا گیا۔
چینی نائب صدر ہی نے پاکستان میں سی پیک منصوبے کے دس سال مکمل ہونے کے موقع پراسلام آباد میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور اقتصادی روابط کے فروغ کے نئے معاہدوں پر دستخط کیے۔
پاکستان۔ چین اکنامک کوریڈور نامی اس منصوبے میں چین نے دس سال میں دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نےچینی نائب صد ہی کے ساتھ مشترکہ ایونٹ میں کہا کہ چین کے ساتھ دوستی کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔
اتوار کے اس حملے کو پاکستان کے شمال مغرب میں ایک عشرے میں ہونے والے بد ترین حملوں میں سے ایک کہا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے 2014 میں پشاور کے آرمی پبلک سکول کے بچوں پر حملہ المناک ترین تھا جس میں 147 افراد ہلاک کر دیے گئے تھے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔
اس سال فروری میں پشاور پولیس ہیڈ کوارٹرز کے کمپاؤنڈ میں واقع مسجد میں ہونے والے بم حملے میں 100 افراد ہلاک ہوئے تھےجن میں اکثریت پولیس اہلکاروں کی تھی۔
(اس خبر میں کچھ مواد اے پی سے لیا گیا ہے)