دولت مند امریکی سالانہ 175 ارب ڈالر کی ٹیکس چوری میں ملوث

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم آئی آر ایس کا صدر دفتر۔ فائل فوٹو۔ مارچ 2014

بائیڈن انتظامیہ امریکہ کے بنیادی ڈھانچے اور ملازمتوں میں بھاری سرمایہ کاری کے اپنے منصوبوں کے لیے درکار رقم، امیر امریکیوں اور کاروباروں پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ کر کے حاصل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

تاہم، وائس آف امریکہ کے راب گارور کی رپورٹ کے مطابق، ایک نئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ دولت مند افراد پہلے ہی سے ٹیکسوں کی مد میں ہر سال 175 ارب ڈالر ادا نہیں کر رہے۔ اور وہ ایسا ٹیکس سے بچنے کی پیچیدہ قسم کی سکیموں کے ذریعے کر رہے ہیں۔ مزید برآں، ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ، ٹیکس قوانین کی تعمیل میں مزید کمی پر منتج ہو گا۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ ہر سال امریکہ کو "ٹیکس گیپ" کا سامنا ہوتا ہے یعنی عائد کئے جانے والے ٹیکسوں اور ادا کئے جانے والے ٹیکسوں میں ایک واضح فرق موجود رہتا ہے۔

تاہم، جب امریکہ کے محکمہ ٹیکس، انٹرنل ریوینیو سروس یعنی (آئی آر ایس) کے محققین نے تین ماہرینِ معیشت کے ساتھ مل کر آئی آر ایس سے ہر سال مخفی رکھے جانے والی آمدن کا حساب لگایا تو ان کے تخمینے پہلے کئے گئے حساب کتاب سے کہیں زیادہ تھے۔

ان کی تحقیق کو اس ماہ نیشنل بیورو فار اکنامک ریسرچ نے شائع کیا ہے۔ انہوں نے اپنی تحقیق میں آئی آر ایس کے ریکارڈ سے حاصل کردہ جامع ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے واضح کیا کہ امریکہ کے ایک فیصد امیر ترین افراد نے ظاہر کی جانے والی اپنی آمدن میں 20 فیصد کم ظاہر کی۔

تحقیق میں شامل لندن سکول آف اکنامکس کے ڈینئیل ریک کا کہنا ہے کہ آمدن کی بلند ترین سطح پر بڑی نفاست سے اچھا خاصا ٹیکس بچایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خاص طور پر "ٹیکس گیپ" کا تخمینہ لگانے کے لیے، اچانک کیے جانے والے آڈٹ سے نفاست سے بچایا گیا ٹیکس نہیں پکڑا جاتا۔

تحقیق سے پتہ چلا کہ ظاہر نہ کی جانے والی آمدن، غیر ملکی بینک اکاؤنٹوں میں رکھی جاتی ہے یا پھر ایسے کاروباروں سے حاصل ہوتی ہے جن سے ٹیکسوں میں چھوٹ ملتی ہے اور جن میں اخراجات کو بڑھا چڑھا کر دکھایا جاتا ہے اور پھر قیمتیں بھی بڑھا دی جاتی ہیں، جس سے کاروبار سے حاصل منافع پر عائد ہونے والے ٹیکس کو مالک کی عمومی آمدن تصور کیا جاتا ہے۔

ٹیکس کی اتنی زیادہ عدم ادائیگی پکڑی کیوں نہیں جاتی؟ اس کے پیچھے کار فرما اہم ترین وجہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک عشرے سے امریکہ کے محکمہ محصولات آئی آر ایس کو تسلسل کے ساتھ ناکافی فنڈز کا سامنا ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سے ایسے آڈٹ کرنے میں زبردست کمی ہوئی ہے جو اسے کرنا تھے، خاص طور پر پیچیدہ کاروبار کے مالک دولت مند افراد کے۔

آئی آر ایس کی جانب سے ہر سال ٹیکس کی مد میں اتنی بڑی رقم وصول نہ کرنے کا انکشاف ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب کانگریس بائیڈن انتظامیہ کی پیش کردہ ٹیکسوں میں اضافے کی تجویز پر یہ بحث کرنے جا رہی ہے کہ اس کا نفاذ کیسے کیا جائے۔

صدر بائیڈن نے اپنی صدارتی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ سب سے زیادہ آمدن والے امریکیوں پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ کریں گے، اور ساتھ ہی یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ ایسے امریکی جن کی آمدن چار لاکھ ڈالر سالانہ سے کم ہے، ان پر عائد ٹیکس میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ صدر بائیڈن نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ کارپوریٹ ٹیکس کو 21 فیصد سے بڑھا کر 28 فیصد کر دیں گے۔

تاہم 25 مارچ کو سینٹ کی بجٹ کمیٹی کے سامنے ہونے والی سماعت کے دوران صدر بائیڈن کے دعوے کے بالکل برعکس یہ بات سامنے آئی کہ دولت مند امریکی اپنے ٹیکسوں کی منصفانہ ادائیگی نہیں کرتے۔

قدامت پسند نظریات رکھنے والے ایک تھنک ٹینک، ٹیکس فاؤنڈیشن کے صدر سکاٹ اے ہوج نے کمیٹی کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ دولت مند امریکی سن 1980 کے بعد، اس وقت مرکزی حکومت کو ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن کا بہت بڑا حصہ ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے آئی آر ایس کے سن 2018 کے ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ایک فیصد امیر ترین ٹیکس دہندگان نے 616 ارب ڈالر انکم ٹیکس کی مد میں ادا کئے تھے، جو کہ ٹیکس کی کُل ادائیگی کا 40 فیصد بنتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ شرح، سن 1980 کے بعد سب سے زیادہ ہے، اور ٹیکس ادائیگی میں اِن کا حصہ 90 فیصد امریکیوں سے زیادہ ہے۔

اس سماعت میں پیش ہونے والوں میں، ایبی گیل ڈزنی بھی شامل تھیں، جن کے دادا، رائے ڈزنی نے والٹ ڈزنی کمپنی کی بنیاد ڈالی تھی۔ ایبی گیل ڈزنی اُن دولت مند امریکیوں میں شامل ہیں جو اس بات کی قائل ہیں کہ امیر امریکیوں کو زیادہ ٹیکس ادا کرنا چاہئیے۔

انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ امریکہ میں دولت کی تقسیم کا بلند ترین سطح پر اتنا بڑ ارتکاز، اس بات کو ضروری بناتا ہے کہ دولت مندوں پر ٹیکسوں میں اضافہ ہونا چاہئیے۔

انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اپنا منصفانہ حصہ ادا کرنا چاہئیے اور انہیں اس بات پر شکایت نہیں کرنی چاہئیے اور ساتھ ہی اس بات کو بھی سمجھنا چاہئیے کہ ٹیکس ادا کرنا کوئی سزا نہیں بلکہ ایک ذمہ داری ہے۔