عراق کی شیعہ حکومت کے مخالف سنی جنگجووں نے یکم جنوری کو شام کی سرحد سے منسلک صوبے الانبار کے دو بڑے شہروں – رمادی اور فلوجہ پر قبضہ کرلیا تھا۔
واشنگٹن —
عراق کی حکومت نے ملک کے مغربی شہر پر گزشتہ ایک ماہ سے قابض جنگجووں کے خلاف فوجی کاروائی کا حتمی فیصلہ کرلیا ہے اور فوجی دستوں کی جانب سے شہر میں داخلے کی تیاریاں آخری مرحلے میں داخل ہوگئی ہیں۔
عراقی فوج کے افسران نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ فوجی دستے مقامی وقت کے مطابق اتوار کی شام چھ بجے فلوجہ شہر میں داخل ہوجائیں گے۔
خیال رہے کہ عراق کی شیعہ حکومت کے مخالف سنی شدت پسندوں نے یکم جنوری کو شام کی سرحد سے منسلک صوبے الانبار کے دو بڑے شہروں – رمادی اور فلوجہ پر قبضہ کرلیا تھا۔
دونوں شہروں پر قبضہ کرنے والے جنگجووں میں 'القاعدہ' کی مقامی شاخ سے تعلق رکھنے والے شدت پسند بھی شامل ہیں جن کی پیش قدمی کے فوراً بعد عراقی حکومت نے علاقے میں فوجی دستے روانہ کردیے گئے تھے۔
گزشتہ پورے ماہ جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد عراقی فوج نے رمادی شہر کا بیشتر علاقہ جنگجووں کے قبضے سے چھڑا لیا ہے لیکن فلوجہ بدستور جنگجووں کے قبضے میں ہے۔
عراق کے وزیرِاعظم نوری المالکی – جو فوج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں - کی ہدایت پرفوجی دستے گزشتہ ایک ماہ سے فلوجہ شہر کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں جہاں سے وہ وقتاً فوقتاً شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرتے رہے ہیں۔
عراقی وزیرِاعظم نے گزشتہ ایک ماہ سے فوجی دستوں کو فلوجہ میں داخل ہونے سے روکا ہوا تھا تاکہ مقامی قبائلیوں کو اپنے طور پر جنگجووں کو شہر سے نکالنے کی مہلت دی جاسکے۔
تاہم فوجی افسران نے مغربی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ قبائلیوں کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد فوج کو شہر میں داخلے کی اجازت مل گئی جس کے بعد اتوار سے جنگجووں کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا جائے گا۔
صوبے الانبار کے گورنر نے ہفتے کو شدت پسندوں اور قبائلی جنگجووں کو ہتھیار ڈالنے کا "آخری انتباہ" جاری کیا ہے۔ حکومت نے شہر سے نکلنے والوں کو محفوظ راستہ دینے اور ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی دینے کی پیش کش بھی کی ہے۔
فلوجہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ فوجی کاروائی سے قبل شہر اور اس کے مضافات کا بیرونی دنیا سے مواصلاتی رابطہ منقطع کردیا گیا ہے۔
شہر کے گرد و نوح میں موجود فوجی اہلکاروں نے 'رائٹرز' سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ انہیں شہر پر حملے کے احکامات موصول ہوگئے ہیں جب کہ شہر کے جنوب اور جنوب مشرقی سمت موجود فوجی دستوں نے پیش قدمی بھی شروع کردی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ شہر پر پہلے فضائی حملے اور بمباری کی جائے گی جس کے بعد زمینی دستے پیش قدمی کریں گے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ انہیں زیادہ مزاحمت کا سامنا شہر کے جنوبی علاقوں میں ہوگا جہاں شدت پسندوں نے مورچے قائم کرلیے ہیں۔
عراقی فوج کے افسران نے برطانوی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ فوجی دستے مقامی وقت کے مطابق اتوار کی شام چھ بجے فلوجہ شہر میں داخل ہوجائیں گے۔
خیال رہے کہ عراق کی شیعہ حکومت کے مخالف سنی شدت پسندوں نے یکم جنوری کو شام کی سرحد سے منسلک صوبے الانبار کے دو بڑے شہروں – رمادی اور فلوجہ پر قبضہ کرلیا تھا۔
دونوں شہروں پر قبضہ کرنے والے جنگجووں میں 'القاعدہ' کی مقامی شاخ سے تعلق رکھنے والے شدت پسند بھی شامل ہیں جن کی پیش قدمی کے فوراً بعد عراقی حکومت نے علاقے میں فوجی دستے روانہ کردیے گئے تھے۔
گزشتہ پورے ماہ جاری رہنے والی جھڑپوں کے بعد عراقی فوج نے رمادی شہر کا بیشتر علاقہ جنگجووں کے قبضے سے چھڑا لیا ہے لیکن فلوجہ بدستور جنگجووں کے قبضے میں ہے۔
عراق کے وزیرِاعظم نوری المالکی – جو فوج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں - کی ہدایت پرفوجی دستے گزشتہ ایک ماہ سے فلوجہ شہر کا محاصرہ کیے ہوئے ہیں جہاں سے وہ وقتاً فوقتاً شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کرتے رہے ہیں۔
عراقی وزیرِاعظم نے گزشتہ ایک ماہ سے فوجی دستوں کو فلوجہ میں داخل ہونے سے روکا ہوا تھا تاکہ مقامی قبائلیوں کو اپنے طور پر جنگجووں کو شہر سے نکالنے کی مہلت دی جاسکے۔
تاہم فوجی افسران نے مغربی ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ قبائلیوں کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد فوج کو شہر میں داخلے کی اجازت مل گئی جس کے بعد اتوار سے جنگجووں کے خلاف کاروائی کا آغاز کردیا جائے گا۔
صوبے الانبار کے گورنر نے ہفتے کو شدت پسندوں اور قبائلی جنگجووں کو ہتھیار ڈالنے کا "آخری انتباہ" جاری کیا ہے۔ حکومت نے شہر سے نکلنے والوں کو محفوظ راستہ دینے اور ہتھیار ڈالنے والوں کو معافی دینے کی پیش کش بھی کی ہے۔
فلوجہ کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ فوجی کاروائی سے قبل شہر اور اس کے مضافات کا بیرونی دنیا سے مواصلاتی رابطہ منقطع کردیا گیا ہے۔
شہر کے گرد و نوح میں موجود فوجی اہلکاروں نے 'رائٹرز' سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ انہیں شہر پر حملے کے احکامات موصول ہوگئے ہیں جب کہ شہر کے جنوب اور جنوب مشرقی سمت موجود فوجی دستوں نے پیش قدمی بھی شروع کردی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ شہر پر پہلے فضائی حملے اور بمباری کی جائے گی جس کے بعد زمینی دستے پیش قدمی کریں گے۔ حکام کو خدشہ ہے کہ انہیں زیادہ مزاحمت کا سامنا شہر کے جنوبی علاقوں میں ہوگا جہاں شدت پسندوں نے مورچے قائم کرلیے ہیں۔