واشنگٹن —
عراقی وزیر اعظم نے فلوجہ کے زیرِ محاصرہ شہر کے باشندوں اور قبائلیوں پر زور دیا ہے کہ القاعدہ سے واسطہ رکھنے والے شدت پسندوں کو باہر نکالا جائے، تاکہ فوجی کارروائی کی ضرورت ہی نہ پڑے، جِس کے بارے میں اہل کاروں کا کہنا ہے کہ کچھ ہی دِنوں کے اندر اندر اِس کا آغاز ہو جائے گا۔
ریاستی ٹیلی ویژن پر نوری الماکی کا یہ پیغام اُس وقت نشر ہو رہا تھا، جب ماردھاڑ کے خدشے کے پیشِ نظر، درجنوں خاندان پیر کے روز شہر چھوڑ کر جا رہے تھے۔
بعدازاں، واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ امریکہ عراق کو فوجی ہتھیاروں کی فروخت اور رسد فراہم کرنے میں تیزی لانے کا ارادہ رکھتا ہے، تاکہ القاعدہ سے منسلک باغیوں سے نمٹنے کے لیے ملک کی مدد کی جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس سال امریکہ کڑی نگرانی کے کام میں مدد کے لیے، مزید ڈرون طیارے اور ’ہیل فائر مزائل‘ عراق روانہ کرے گا۔ تاہم، سلامتی کا کام قیادت کو ہی سنبھالنا چاہیئے اور تنازع سے اپنے طور پر نمٹنا چاہیئے۔
عراقی حکومت کے فوجیوں نے فلوجہ کا محاصرہ کر رکھا ہے، جو صوبہ انبار کے مغربی علاقے میں واقع ہے،جس کی اکثریتی آبادی سنیوں پر مشتمل ہے، اور گذشتہ ہفتے اُس کے صوبائی دارالحکومت رمادی کے زیادہ تر حصوں میں القاعدہ کے جنگ جوؤں نے قبضہ جمایا ہوا ہے۔
مسٹر مالکی ایک شیعہ ہیں، جِن کی حکومت کو فلوجہ کی سنی آبادی میں کم ہی حمایت حاصل ہے۔ اور، اپنے خطاب میں، اُنھوں نے بتایا کہ اُنھوں نے سلامتی کی افواج کو احکامات صادر کر دیے ہیں کہ رہائشی علاقوں کو ہدف نہ بنایا جائے۔
سکیورٹی کے اہل کاروں نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے اِس بات سے اتفاق کرلیا ہے کہ یہ کارروائی ابھی نہ کی جائے، تاکہ فلوجہ کے قبائلی رہنماؤں کو مزید وقت میسر آسکے کہ وہ مذہبی شدت پسندوں کو اپنے طورپر وہاں سے نکال باہر کریں۔
اتوار کے دِن، عراقی فوج اور جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں کم از کم 34 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ حکومتی افواج نے رمادی پر فضائی حملے کیے۔
القاعدہ سے منسلک ’عراقی اسلامی ریاست‘ اور بھگوڑوں کا یہ گروہ حکومتی افواج اور اتحادی قبائلی عسکریت پسندوں کی کوششوں کو ناکام بناتا رہا ہے، جِن میں کچھ سنی بھی شامل ہیں، جو شدت پسندوں کے مخالف ہیں۔
عراق کی شیعہ قیادت والی حکومت اور سنی اقلیت کے درمیان ہونے والی کارروائیوں اور واقعات میں گذشتہ برس ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
سُنی حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ اُن کی ضروریات کو نظرانداز کیا جاتا ہے، اور اُنھیں سیاسی طور پر دیوار سے لگایا گیا ہے۔ عراقی اہل کار سُنیوں پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
ریاستی ٹیلی ویژن پر نوری الماکی کا یہ پیغام اُس وقت نشر ہو رہا تھا، جب ماردھاڑ کے خدشے کے پیشِ نظر، درجنوں خاندان پیر کے روز شہر چھوڑ کر جا رہے تھے۔
بعدازاں، واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان، جے کارنی نے کہا ہے کہ امریکہ عراق کو فوجی ہتھیاروں کی فروخت اور رسد فراہم کرنے میں تیزی لانے کا ارادہ رکھتا ہے، تاکہ القاعدہ سے منسلک باغیوں سے نمٹنے کے لیے ملک کی مدد کی جائے۔
اُنھوں نے کہا کہ اِس سال امریکہ کڑی نگرانی کے کام میں مدد کے لیے، مزید ڈرون طیارے اور ’ہیل فائر مزائل‘ عراق روانہ کرے گا۔ تاہم، سلامتی کا کام قیادت کو ہی سنبھالنا چاہیئے اور تنازع سے اپنے طور پر نمٹنا چاہیئے۔
عراقی حکومت کے فوجیوں نے فلوجہ کا محاصرہ کر رکھا ہے، جو صوبہ انبار کے مغربی علاقے میں واقع ہے،جس کی اکثریتی آبادی سنیوں پر مشتمل ہے، اور گذشتہ ہفتے اُس کے صوبائی دارالحکومت رمادی کے زیادہ تر حصوں میں القاعدہ کے جنگ جوؤں نے قبضہ جمایا ہوا ہے۔
مسٹر مالکی ایک شیعہ ہیں، جِن کی حکومت کو فلوجہ کی سنی آبادی میں کم ہی حمایت حاصل ہے۔ اور، اپنے خطاب میں، اُنھوں نے بتایا کہ اُنھوں نے سلامتی کی افواج کو احکامات صادر کر دیے ہیں کہ رہائشی علاقوں کو ہدف نہ بنایا جائے۔
سکیورٹی کے اہل کاروں نے کہا ہے کہ وزیر اعظم نے اِس بات سے اتفاق کرلیا ہے کہ یہ کارروائی ابھی نہ کی جائے، تاکہ فلوجہ کے قبائلی رہنماؤں کو مزید وقت میسر آسکے کہ وہ مذہبی شدت پسندوں کو اپنے طورپر وہاں سے نکال باہر کریں۔
اتوار کے دِن، عراقی فوج اور جنگجوؤں کے درمیان لڑائی میں کم از کم 34 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ حکومتی افواج نے رمادی پر فضائی حملے کیے۔
القاعدہ سے منسلک ’عراقی اسلامی ریاست‘ اور بھگوڑوں کا یہ گروہ حکومتی افواج اور اتحادی قبائلی عسکریت پسندوں کی کوششوں کو ناکام بناتا رہا ہے، جِن میں کچھ سنی بھی شامل ہیں، جو شدت پسندوں کے مخالف ہیں۔
عراق کی شیعہ قیادت والی حکومت اور سنی اقلیت کے درمیان ہونے والی کارروائیوں اور واقعات میں گذشتہ برس ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
سُنی حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ اُن کی ضروریات کو نظرانداز کیا جاتا ہے، اور اُنھیں سیاسی طور پر دیوار سے لگایا گیا ہے۔ عراقی اہل کار سُنیوں پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔