امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ عراق میں امریکی سفارت خانہ محفوظ ہے۔ ہمارے عظیم فوجی انتہائی خطرناک فوجی ساز و سامان کے ساتھ فوری طور پر موقع پر پہنچ چکے ہیں۔
عراق کے دارالحکومت بغداد میں منگل کو ہزاروں مظاہرین گرین زون میں سیکیورٹی رکاوٹیں توڑتے ہوئے امریکی سفارت خانے پہنچے اور وہاں جلاؤ گھیراؤ کیا۔
مظاہرین ایران نواز ملیشیا کے خلاف امریکی فورسز کی حالیہ کارروائی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس دوران انہوں نے امریکی پرچم نذر آتش کیے اور امریکہ کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔
صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں بغداد میں مدد کی درخواست کے بعد فوری کمک پہنچانے کے لیے عراق کے صدر اور وزیرِ اعظم کا شکریہ ادا کیا۔
ایک اور ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’اگر ہماری کسی بھی تنصیب پر کوئی جانی یا مالی نقصان ہوا تو اس کا ذمہ دار ایران ہو گا اور اسے اس کی بھاری قیمت ادا کرنا ہوگی۔
صدر ٹرمپ نے خبردار کیا کہ یہ محض وارننگ نہیں بلکہ دھمکی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ عراقی رہنماؤں نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے ٹیلی فون گفتگو کے دوران یقین دہانی کرائی ہے کہ عراق میں امریکی اہلکاروں اور امریکی املاک کا تحفظ کیا جائے گا۔
بغداد میں امریکی سفارت خانے پر مظاہرین کے حملے کے بعد منگل کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے عراقی وزیرِ اعظم عادل عبد المہدی اور صدر برہام صالح سے ٹیلی فون پر علیحدہ علیحدہ گفتگو کی تھی۔
بیان کے مطابق محکمہ خارجہ کی خاتون ترجمان مورگن اوٹیگس نے بتایا کہ 'امریکی وزیر خارجہ نے واضح کیا کہ امریکہ اپنے لوگوں کا دفاع کرے گا اور انھیں تحفظ فراہم کرے گا، جو خودمختار اور آزاد عراق کی حمایت میں وہاں موجود ہیں‘۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ’’عبد المہدی اور صالح دونوں نے امریکی وزیر خارجہ کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سنجیدگی سے نبھائیں گے اور امریکی اہلکاروں اور جائیداد کی حفاظت اور سلامتی کی ضمانت دیتے ہیں‘‘۔
محکمہ خارجہ نے ایک اور بیان میں کہا ہے کہ تمام امریکی اہلکار محفوظ ہیں اور سیکورٹی بحال کی جا چکی ہے، جب کہ ’’لوگوں کو نکالنے کا کوئی پروگرام نہیں ہے‘‘۔ مزید بتایا گیا ہے کہ امریکی سفیر میٹ ٹوٹلر سفر پر تھے، اور ہنگامے کے وقت وہ سفارت خانے میں موجود نہیں تھے۔
امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے منگل کے روز اعلان کیا کہ سفارت خانے کے عملے کی مدد کے لیے امریکہ اضافی فوجیں روانہ کر رہا ہے۔ انھوں نے اس کی کوئی تفصیل نہیں بتائی۔ تاہم، اخباری اطلاعات میں کہا گیا ہے کہ چند اضافی امریکی میرین گارڈ تعینات کیے جا رہے ہیں۔
عراق کے دارالحکومت بغداد میں مشتعل ہجوم نے امریکی سفارت خانے پر حملہ کر دیا اور توڑ پھوڑ کرتے ہوئے امریکی پرچم بھی نذر آتش کیے۔
امریکی فورسز کی جانب سے ایران نواز تنظیم کتائب حزب اللہ کے خلاف اتوار کو کی جانے والی کارروائی کے خلاف ہزاروں افراد نے منگل کو امریکی سفارت خانے کی جانب مارچ کیا۔
مظاہرین سخت سیکیورٹی والے علاقے 'گرین زون' میں رکاوٹیں توڑتے ہوئے امریکی سفارت خانے کی عمارت تک پہنچے اور 'امریکہ کی موت' کے نعرے لگاتے رہے۔
مظاہرے میں خواتین کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔ مظاہرین نے امریکی پرچم نذر آتش کیے اور امریکی سفارت خانے کے باہر توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیواروں کو آگ لگا دی۔
عراق کی حکومت نے بھی امریکہ کی حالیہ فضائی کارروائی پر خبر دار کیا تھا کہ اس طرح کی کارروائیوں سے امریکہ کے ساتھ تعلقات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی جنگی طیاروں نے اتوار کو ایران نواز جنگجو تنظیم کتائب حزب اللہ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا جس میں تنظیم کے اہم کمانڈروں سمیت کم از کم 25 جنگجو ہلاک اور 51 زخمی ہوئے تھے۔
اس سے قبل، عراق کی حکومت نے پیر کو امریکہ کی اس کارروائی پر اپنے ردِ عمل میں کہا تھا کہ اس طرح کی کارروائیاں ملکی خودمختاری کے خلاف ہیں۔ اس معاملے پر امریکی سفارت کار کو طلب کیا جائے گا۔
عراق کی قائم مقام حکومت نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ امریکی فورسز اپنے سیاسی مقاصد کے لیے کارروائیاں کر رہی ہیں، اُنہیں عراق کے عوام سے کوئی غرض نہیں۔
امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ عراق کے حکام امریکی مفادات کا تحفظ کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔
امریکہ کی فضائی کارروائی کے بعد عراق کے شیعہ اکثریتی شہر نجف، بصرہ اور کرکک میں عوام کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا اور مشتعل افراد نے امریکی پرچم بھی نذر آتش کیے۔
SEE ALSO: امریکی فوج کی عراق اور شام میں بمباری 18 جنگجو ہلاکعراق کے منتخب ارکان نے امریکی فورسز کو ملک سے بیدخل کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
عراقی حکومت کا کہنا ہے کہ عراق کو امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنا ہوگی تاکہ ملکی خود مختاری کے لیے سیاسی، سیکیورٹی اور قانونی معاملات کو نئے سرے سے ترتیب دیا جائے۔
عراق کے درجنوں ارکان اسمبلی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ اس معاہدے پر نظرثانی کی جائے جس کے تحت امریکی فوج کے 5200 اہلکار ملک میں تعینات ہیں۔
امریکہ کے معاون وزیر خارجہ ڈیوڈ شنکر کا کہنا ہے کہ امریکہ کی فضائی کارروائی حزب اللہ بریگیڈ کی جمعے کو کرکوک میں کیے جانے والے راکٹ حملوں کے جواب میں کی گئی جس میں ایک امریکی سویلین کنٹریکٹر ہلاک ہوا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم عراق میں کشیدگی نہیں چاہتے بلکہ یہاں کشیدگی کے خاتمے کے لیے موجود ہیں۔
عراق کے سیاسی رہنما خوفزدہ ہیں کہ ان کا ملک ایران اور امریکہ کے درمیان جاری کشیدگی کی وجہ سے میدان جنگ بن سکتا ہے۔
یاد رہے کہ عراق میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد احتجاج کے بعد حال ہی میں وزیر اعظم عادل عبدالمہدی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔