عراق میں بدھ کو حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے جاری رہے جن میں مظاہرین نے نئے وزیراعظم کی نامزدگی کو مسترد کیا جب کہ ایک معروف سرگرم کارکن کی ہلاکت پر جلوس اور ریلیاں نکالی گئیں۔
طاہر الطیب کی کار 15 دسمبر کو ایک پراسرار دھماکے میں تباہ ہوگئی تھی۔ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چند دنوں بعد انتقال کرگئے۔
اس اعلان کے فوراً بعد جنوبی شہر دیوانیہ میں ریلیاں نکالی گئیں اور مظاہرین نے مبینہ طور پر ایران کی پشت پناہی والی سیاسی جماعتوں کے چند دفاتر پر حملہ کیا۔
حکومت مخالف مظاہرین نے اکتوبر سے دارالحکومت اور شیعہ اکثریت والے جنوبی علاقے کا نظام زندگی درہم برہم کررکھا ہے۔ مظاہرین بدعنوانی، سرکاری محکموں کی غیر تسلی بخش کارکردگی اور روزگار کے مواقع کی عدم دستیابی پر احتجاج کررہے ہیں۔
احتجاج کی شدت اس وقت نسبتاً کم ہوئی جب گزشتہ ماہ وزیراعظم عادل عبدالمہدی مستعفی ہوئے۔
مظاہرین کو اس ہفتے اس وقت کامیابی ملی جب پارلیمان نے انتخابی اصلاحات کے بل کی منظوری دی جس سے آئندہ انتخابات میں بہتری کی توقع کی جارہی ہے۔ یہ قانون سازی ویسے ہی ہوئی جیسی مظاہرین تجویز کرتے رہے ہیں۔ لیکن حزب مخالف کے متعدد رہنما کہتے ہیں کہ ابھی بہت کچھ حاصل کرنا باقی ہے۔
عبدالمہدی کے استعفے کے بعد نیا وزیراعظم مقرر کرنے کی کئی حتمی تاریخیں دی گئیں لیکن صدر برہام صالح اور پارلیمان اس میں کامیاب نہیں ہوئے۔
عبدالمہدی اور ان کی حکومت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جب تک نئے وزیراعظم سے متعلق اتفاق رائے نہیں ہوجاتا، تب تک نگراں وزیراعظم کا تقرر کیا جائے۔