امریکہ، فرانس اور عراق کے اعلیٰ حکام نے کہا ہے کہ انہیں شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف تشکیل پانے والے بین الاقوامی اتحاد کی کامیابی کا یقین ہے لیکن کارروائی کو مزید موثر بنانے کے لیے جدید ہتھیاروں اور عراقی فوج کو تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
منگل کو پیرس میں اتحادی ملکوں کے وزارتی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکہ کے نائب وزیرِ خارجہ اینتونی بلنکن نے دعویٰ کیا کہ کثیر المکی اتحاد نے عراق میں کئی کامیابیاں سمیٹی ہیں۔
لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ اتحادی ملکوں کو ان کامیابیوں کو برسرِ زمین برقرار رکھنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
نائب امریکی وزیر کا کہنا تھا کہ منگل کو ہونے والے اجلاس میں اتحادی ملکوں نے انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری کے ساتھ داعش کے خلاف جنگ میں ہونے والی کامیابیوں اور ناکامیوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
عراق کے وزیرِ اعظم حیدر العبادی اور فرانس کے وزیر ِ خارجہ لوغان فیبیوس کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اینتونی بلنکن نے زیادہ تر گفتگو عراق کے متعلق کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ داعش پر قابو پانے کے لیے شام میں سیاسی استحکام ضروری ہے۔
امریکہ کی قیادت میں تشکیل پانے والا بین الاقوامی اتحاد شام اور عراق دونوں ملکوں میں گزشتہ کئی ماہ سے داعش کے ٹھکانوں اور مورچوں پر فضائی بمباری کر رہا ہے۔
'پینٹاگون' کے مطابق بین الاقوامی اتحاد کی گزشتہ سال اگست سے جاری مہم کے دوران عراق اور شام میں داعش کے ٹھکانوں پر 4200 سے زائد فضائی حملے کیے جاچکے ہیں۔
لیکن ان فضائی کارروائیوں کے باوجود شدت پسندوں کا زور توڑا نہیں جاسکا ہے جو دونوں ملکوں میں مسلسل پیش قدمی کرتے ہوئے نئے علاقوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر کا کہنا تھا کہ عراق میں بین الاقوامی اتحاد درست حکمتِ عملی پر کاربند ہے جو اتحادی طیاروں کی بمباری کے ساتھ ساتھ مقامی فورسز کو تربیت، اسلحے اور معاونت کی فراہمی پر مشتمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ داعش کے خلاف یہ ایک کامیاب حکمتِ عملی ہے جس کے مثبت نتائج برآمد ہورہے ہیں۔
لیکن اجلاس میں شریک عراقی وزیرِ اعظم حیدر العبادی کا شکوہ تھا کہ عراقی فورسز کو بین الاقوامی اتحاد سے خاطر خواہ مدد نہیں مل رہی ہے۔
اجلاس سے قبل صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیرِاعظم العبادی نے کہا تھا کہ بین الاقوامی اتحاد نے غیر ملکی جنگجووں کو داعش میں شمولیت سے روکنا اپنا اولین ہدف قرار دیا تھا جو تاحال حاصل نہیں کیا جاسکا ہے اور داعش کے ساتھ مل کر لڑنے کے خواہش مند غیر ملکیوں کی عراق آمد کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ شدت پسندوں کے مقابلے کے لیے انٹیلی جنس کے نظام کو مزید موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
پیرس میں ہونے والا یہ اجلاس عراق کے صوبے الانبار کے دارالحکومت رمادی پر داعش کے قبضے کے دو ہفتے بعد منعقد ہوا ہے۔
دارالحکومت بغداد سے محض 125 کلومیٹر دور واقع اس اہم شہر پر داعش کے قبضے کے بعد عراقی وزیرِاعظم نے فوج اور اس کی حامی شیعہ ملیشیاؤں کو فوراً علاقے میں پہنچنے کا حکم دیا تھا تاکہ شدت پسندوں کی پیش قدمی کو روکا جاسکے۔
عراقی فوج اور شیعہ ملیشیاؤں نے گزشتہ ہفتے رمادی کا قبضہ چھڑانے کے لیے ایک بڑے حملے کا آغاز کیا ہے جس میں حکومتی فورسز کو تاحال کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔