ایران کے صدر کا پہلا دورۂ عراق؛ غزہ جنگ اور علاقائی سیکیورٹی ایجنڈے میں شامل

  • ایران کے صدر مسعود پزشکیان کا منتخب ہونے کے بعد یہ پہلا دورۂ عراق ہے۔
  • ایرانی صدر نے بدھ کو عراق کے وزیرِ اعظم محمد شیاع السودانی سے ملاقات کی جس میں خطے کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔
  • ایران کے وزیرِ خارجہ سید عباس عراقچی کے مطابق دونوں ممالک تجارت، زراعت اور مواصلات کے شعبوں میں تعاون کے 15 سمجھوتے کریں گے۔
  • عراق کے امریکہ اور ایران دونوں کے ساتھ روابط ہیں اور یہاں اب بھی 2500 امریکی فوجی موجود ہیں۔

ایران کے صدر مسعود پزشکیان پہلی مرتبہ عراق کے دورے پر بدھ کو بغداد پہنچے ہیں۔ علاقائی صورتِ حال اور خطے میں پائی جانے والی کشیدگی کے تناظر میں اس دورے کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔

ایرانی صدر نے بدھ کو عراق کے وزیرِ اعظم محمد شیاع السودانی سے ملاقات کی جس میں خطے کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

بغداد میں حکام کا کہنا ہے کہ دورے کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان مختلف معاہدوں پر دستخطوں کے علاوہ، غزہ جنگ اور خطے کی صورتِ حال بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔

خطے میں تیل پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں شامل عراق میں ایران سے منسلک کئی تنظیمیں اور مسلح گروپ متحرک ہیں۔ سن 2003 میں عراق پر امریکی حملے کے بعد صدام حسین حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا جس کے بعد ایران نے بھی یہاں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا شروع کر دیا تھا۔

عراق کے امریکہ اور ایران دونوں کے ساتھ روابط ہیں اور یہاں اب بھی 2500 امریکی فوجی موجود ہیں۔ لیکن ساتھ ہی عراق کی سیکیورٹی فورسز میں ایران کے حمایت یافتہ دھڑے بھی موجود ہیں۔

گزشتہ برس غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد عراق پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ نے فروری میں عراق میں بھی ایران نواز مسلح دھڑوں کو نشانہ بنایا تھا۔

ایران کے وزیرِ خارجہ سید عباس عراقچی نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ دونوں ممالک تجارت، زراعت اور مواصلات کے شعبوں میں تعاون کے 15 سمجھوتے کریں گے۔

اُں کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کے کئی مواقع ہیں جن میں سیکیورٹی، علاقائی اور سیاسی اُمور بھی شامل ہیں۔

ایرانی میڈیا کے مطابق مسعود پزشکیان کے دورے کے دوران انہوں نے اُس یادگار کا بھی دورہ کیا جہاں جنوری 2020 میں امریکی کارروائی میں پاسدرانِ انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی مارے گئے تھے۔

جنرل قاسم سلیمانی پر حملے کے بعد امریکہ اور ایران کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے اور مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور جنگ کے خطرات منڈلانے لگے تھے۔ جوابی کارروائی میں ایران نے عراق میں امریکی فوج کے اہداف کو نشانہ بنایا تھا۔

غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے عراق میں ایران سے منسلک مسلح گروہ مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجیوں پر متعدد بار حملے کر چکے ہیں۔

ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق صدر عراقی کردستان جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں جہاں ماضی میں ایران یہ کہہ کر حملے کرتا رہا ہے کہ اس علاقے کو ایران کے علیحدگی پسند گروپس اور اسرائیل کے ایجنٹ استعمال کرتے ہیں۔

بغداد علاقائی علیحدگی پسند گروپس کے بارے میں ایران کے خدشات دُور کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ سن 2023 میں دونوں ملکوں کے درمیان ہونے والے سیکیورٹی معاہدے کے تحت سرحد کے قریب مسلح گروپس کی کارروائیاں روکنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

اس خبر کے لیے معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔