رسائی کے لنکس

ٹرمپ اور کاملا کی پہلے صدارتی مباحثے میں ایک دوسرے پر کڑی تنقید


  • امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر کاملا ہیرس کے درمیان پہلے صدارتی مباحثے کی میزبانی نشریاتی ادارے 'اے بی سی' نیوز نے کی۔
  • دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے پر کڑی تنقید کی اور کئی امور سے متعلق سوالات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
  • ریاست پینسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں ہونے والا صدارتی مباحثہ نوے منٹ پر محیط تھا۔
  • مباحثے کے آغاز پر ڈیموکریٹک امیدوار اور نائب صدر کاملا ہیرس نے آگے بڑھ کر سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہاتھ ملایا۔

ویب ڈیسک – امریکہ کی نائب صدر کاملا ہیرس اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان پہلے صدارتی مباحثے کے دوران دونوں امیدواروں نے ایک دوسرے پر کڑی تنقید کی اور مقامی و بین الاقوامی امور سے متعلق سوالات پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

امریکی نشریاتی ادارے 'اے بی سی' نیوز نے ریاست پینسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں صدارتی مباحثے کی میزبانی کی۔ نوے منٹ پر محیط اس مباحثے کو دنیا بھر میں کروڑوں افراد نے دیکھا۔

امریکہ میں پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے لیے کاملا ہیرس ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیں جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ ری پبلکن پارٹی کی جانب سے مسلسل تیسری بار انتخابی دوڑ میں شامل ہیں۔

مباحثے کے آغاز پر جب دونوں امیدوار نشریاتی ادارے ’اے بی سی‘ کے اسٹیج پر آئے تو نائب صدر کاملا ہیرس نے آگے بڑھ کر سابق صدر ٹرمپ سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر ڈیموکریٹک امیدوار نے ری پبلکن رہنما کو اپنا تعارف کرایا۔ واضح رہے کہ یہ ان دونوں کی پہلی بالمشافہ ملاقات تھی۔

یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں صدارتی امیدوار بدھ کو براہِ راست مباحثے میں ایک دوسرے کے مدِ مقابل آئے۔ صدارتی انتخاب سے قبل ان کا یہ واحد مباحثہ تھا۔

صدارتی امیدواروں نے مباحثے میں معیشت، امیگریشن، اسقاطِ حمل، اسرائیل حماس تنازع، روس یوکرین جنگ سمیت دیگر کئی اہم امور پر سوالات کے جواب دیے۔

افغانستان سے انخلا

افغانستان سے فوجی انخلا سے متعلق سوال پر کاملا ہیرس نے کہا کہ وہ صدر بائیڈن کے افغانستان سے انخلا کے فیصلے سے متفق تھیں کیوں کہ اس کے نتیجے میں امریکی عوام کو وہ اخراجات برداشت نہیں کرنا پڑے جو اس سے قبل ایک لامتناہی جنگ کے نتیجے میں انہیں ادا کرنا پڑ رہے تھے۔

ہیرس نے الزام عائد کیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان سے افواج کے انخلا کے لیے کمزور ترین معاہدہ کیا تھا۔ ان کے بقول وہ بہت ہی کمزور اور خوف ناک معاہدہ تھا۔

ہیرس نے کہا کہ ٹرمپ نے افغان حکومت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے دہشت گرد تنظیم طالبان سے براہِ راست مذاکرات کیے گئے جس کے نتیجے میں طالبان نے اپنے پانچ ہزار دہشت گردوں کو رہا کرایا۔

ہیرس نے کہا کہ ٹرمپ نے طالبان کو کیمپ ڈیوڈ آنے کی دعوت دے کر بطور صدر غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا کیوں کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں معزز عالمی رہنماؤں کو مدعو کیا جاتا ہے۔

ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ معاہدے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اُس وقت کو دیکھیں جب طالبان ہمارے فوجیوں کو قتل کر رہے تھے تو اس وقت ان سے بات چیت کی کیوں کہ افغانستان میں فائٹنگ فورس وہی تھے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران 18 ماہ تک ہمارا کوئی اہلکار ہلاک نہیں ہوا اور وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو کے مذاکرات کے نتیجے میں جو معاہدہ ہوا وہ بہت اچھا معاہدہ تھا۔

ٹرمپ نے بائیڈن حکومت پر معاہدے کو تباہ کرنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ معاہدے پر عمل کیا ہوتا تو افغانستان سے جلد انخلا مکمل کر لیتے اور نہ ہمارے فوجی مرتے، نہ ہم بہت سے امریکیوں کو پیچھے چھوڑ آتے اور نہ ہم وہاں 85 ارب ڈالر کا فوجی ساز و سامان چھوڑ آتے۔

ان کے بقول طالبان سے معاہدے میں سب کچھ طے تھا کہ کیا کرنا ہے لیکن بائیڈن حکومت نے کچھ نہیں کیا۔

"معاہدہ ہماری طرف سے ختم ہوا کیوں کہ انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا اور انہوں نے بدترین انخلا کیا جو میرے خیال سے ہمارے لیے تاریخ کا سب سے شرم ناک لمحہ تھا۔"

معیشت

مباحثے کا پہلا موضوع معیشت تھا جس پر بات کرتے ہوئے کاملا ہیرس نے کہا کہ وہ ایک 'مواقع کی معیشت' کا قیام چاہتی ہیں جس کے لیے انہوں نے ایسے منصوبے کی مثال دی جس کے تحت چھوٹے نئے کاروباروں پر پانچ ہزار سے 50 ہزار ڈالر تک ٹیکس کریڈٹ کا اضافہ شامل ہے۔

ان کے بقول "اس وقت میں ہی وہ فرد ہوں جس کے پاس مڈل کلاس کو اوپر لانے کا منصوبہ ہے۔"

انہوں نے کہا کہ ٹرمپ امیروں کی مدد کرتے ہوئے ان پر ٹیکس کم کرنا چاہتے ہیں۔

ٹرمپ کہہ چکے ہیں کہ وہ موجودہ کارپوریٹ ٹیکس ریٹ کو 21 فی صد سے کم کر کے 15 فی صد پر لے آئیں گے جب کہ ہیرس کارپوریٹ ٹیکس ریٹ کو بڑھا کر 28 فی صد پر لے جانا چاہتی ہیں۔ سن 2017 میں ٹرمپ کے ٹیکس بل سے قبل یہ 35 فی صد تھا۔

ٹرمپ نے مباحثے کے دوران معیشت پر جواب دینے کے لیے زیادہ وقت امیگریشن پر صرف کیا۔ تاہم ٹرمپ نے بغیر کسی وضاحت کے کہا کہ انہوں نے امریکہ کی بہترین معیشت کو پروان چڑھایا اور وہ دوبارہ ایسا کریں گے۔

ٹرمپ نے کہا کہ " دیکھیں، مہنگائی کی وجہ سے ہماری معیشت خوف ناک ہے جسے حقیقت میں ملک کی تباہی کے طور پر جانا جاتا ہے۔"

امیگریشن

امیگریشن صدارتی مہم میں اہم مسائل میں سے ایک ہے۔ پورے مباحثے کے دوران ٹرمپ نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے امیگریشن کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت پر کڑی تنقید کی اور ایسا اس وقت بھی ہوا جب ماڈریٹر نے ان سے امیگریشن سے ہٹ کر سوالات پوچھے۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ تارکین وطن مختلف قصبوں میں پھیل چکے ہیں۔ وہ عمارتوں پر قابض ہو رہے ہیں۔ انہوں نے ان کا رویہ پر تشدد قرار دیا۔

انہوں نے اوہائیو میں ہیٹی کے تارکینِ وطن سے متعلق جھوٹے بے بنیاد سازشی نظریات کی مثالیں دیں کہ وہ پالتو کتے اور بلیاں کھاتے ہیں۔

ہیرس نے ٹرمپ کو دو جماعتی بل ختم کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جس کے تحت امریکہ کی جنوبی سرحد پر 1500 سے زائد سرحدی اہلکاروں کو تعینات کیا جانا تھا۔

ہیرس نے کہا کہ وہ اس بل کی حمایت کریں گی۔

اسقاطِ حمل

مباحثے کے دوران ٹرمپ اور ہیرس کے درمیان اس وقت گرما گرمی بڑھی جب انہوں نے اسقاطِ حمل پر بحث شروع کی۔

بطور صدر ٹرمپ نے سپریم کورٹ میں تین ججز کو تعینات کیا تھا، جنہوں نے 2022 میں اکثریتی فیصلے سے اسقاطِ حمل کے آئینی حق کو پلٹ کر رکھ دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے ملک بھر میں ریاستوں کو اسقاطِ حمل پر سخت قوانین کے نفاذ کی بنیاد فراہم کی۔

بحث کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ "سپریم کورٹ نے یہ کام کرنے میں بڑی ہمت دکھائی۔"

جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ قومی سطح پر اسقاطِ حمل پر پابندی کی حمایت کریں گے؟ اس پر انہوں نے کہا، "نہیں، میں اسقاطِ حمل پر پابندی کا حامی نہیں ہوں۔ لیکن اب اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ اب یہ مسئلہ ریاستیں خود دیکھیں گی۔"

انہوں نے مزید کہا کہ وہ ریپ کے کیسز میں اسقاطِ حمل کی مخالفت نہیں کریں گے، جب متاثرہ یا جب ایک ماں کی جان کو خطرہ ہو۔ ٹرمپ نے یہ جھوٹا دعویٰ بھی کیا کہ ڈیموکریٹس 'پیدائش کے بعد' اسقاطِ حمل کی حمایت کرتے ہیں۔

ٹرمپ کے ردِ عمل میں ہیرس نے خواتین کے تولیدی حقوق کی اہمیت پر زور دیا اور کہا، " کسی شخص کو حکومت سے اتفاق کرنے کے لیے اپنے عقائد اور نظریات کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک خاتون کو یہ بتانا نہیں چاہیے کہ اسے اپنے جسم کے ساتھ کیا کرنا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ وہ کانگریس سے ’فیڈرل ابارشن پروٹیکشن بل' کی حمایت کریں گی اور اسے قانون بنانے کے لیے بطور صدر اس بل پر دستخط کریں گی۔

قانون کی بالادستی

ہیرس کئی برسوں تک پراسیکیوٹر رہی ہیں۔ پہلے وہ سان فرانسسکو میں ڈسٹرکٹ اٹارنی تھیں اور پھر کیلی فورنیا میں بطور اٹارنی جنرل رہیں۔ ہیرس کی انتخابی مہم کا بنیادی حصہ ٹرمپ کو جمہوریت کے لیے ایک خطرے کے طور پر پیش کرنا ہے۔

مباحثے کے دوران ہیرس نے ٹرمپ کو ایک سزایافتہ ملزم کے طور پر پیش کیا۔ ٹرمپ نے بے بنیاد الزامات لگاتے ہوئے جواب دیا کہ ہیرس اور بائیڈن انتظامیہ ان کے خلاف تحقیقات کے لیے حکومت کو ابھار رہی ہیں۔

جب ٹرمپ سے سوال کیا کہ آیا وہ 2020 کے صدارتی انتخاب میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں؟ اس پر ٹرمپ نے جواب دیتے ہوئے جھوٹا دعویٰ کیا کہ وہ حقیقت میں انتخاب جیت گئے تھے۔ چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر چڑھائی کے واقعے سے متعلق ٹرمپ نے کہا کہ ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ہیرس نے کہا، "یہ وقت کو تبدیل کرنے کا وقت ہے۔"

ان کے بقول، " ہماری انتخابی مہم میں آپ کے لیے، ملک کے لیے، جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ ہے۔"

ہیرس کے مطابق ملک میں افراتفری اور ہماری جمہوریت کی بنیادوں پر حملے کی سوچ کا خاتمہ ہماری انتخابی مہم میں شامل ہے۔

روس-یوکرین اور اسرائیل-حماس جنگ

مباحثے کے ماڈریٹرز نے کاملا اور ٹرمپ سے یوکرین- روس اور اسرائیل- حماس کے درمیان جاری جنگ سمیت خارجہ پالیسی کے مسائل پر بھی سوالات کیے۔

اسرائیل حماس جنگ پر ہیرس نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کا دفاع کرے گا اور وہ دو ریاستی حل کی حمایت کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جنگ کو فوراْ ختم ہونا چاہیے اور جنگ کے خاتمے کے لیے جنگ بندی معاہدہ ضروری ہے اور یرغمالوں کی واپسی کی بھی ضرورت ہے۔

ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ اگر کاملا ہیرس صدر منتخب ہوئیں تو "اسرائیل کا وجود نہیں رہے گا۔"

انہوں نے اپنے اس دعوے کو بھی دہرایا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو سات اکتوبر کو اسرائیل کے جنوبی علاقوں میں حماس کے ہاتھوں قتلِ عام نہ ہوتا۔

ٹرمپ نے کہا کہ اگر وہ صدر ہوتے تو روس یوکرین جنگ نہ ہوتی۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ روس کے مقابلے میں یوکرین کے جنگ جیتنے کے خواہش مند ہیں؟ اس پر ٹرمپ نے صرف یہ کہا کہ "میں جنگ کو روکنا چاہتا ہوں۔"

ہیرس نے کہا، "اگر ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہوتے، پوٹن اس وقت کیف میں بیٹھے ہوئے ہوتے۔"

مستقبل کی پالیسی

نائب صدر کاملا ہیرس نے کہا کہ وہ اپنی توجہ مستقبل پر مرکوز رکھنا چاہتی ہیں۔ لیکن ٹرمپ ماضی میں ہی پھنسے ہوئے ہیں۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کے پاس متوسط طبقے کی مدد کے لیے منصوبہ ہے۔

ٹرمپ نے ہیرس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کاملا صدارتی آفس میں ہیں تو انہوں نے اپنے منصوبے پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا۔

انہوں نے اسی بات کو پھر دہرایا کہ کاملا نے منصوبے پر عمل کیوں نہیں کیا؟

فورم

XS
SM
MD
LG