علی اکبر صالحی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک شام میں فریقین کے درمیان جلد مذاکرات ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔
واشنگٹن —
ایران کے وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی مصر کے دورے پر ہیں جہاں انہوں نے جمعرات کو دارالحکومت قاہرہ میں صدر محمد مرسی اور اپنے مصری ہم منصب سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کی ہیں۔
ایرانی وزیرِ خارجہ کے دورہ مصر کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ شام کی صورتِ حال پر مصری قیادت کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا ہے۔
شیعہ اکثریتی ملک ایران کے وزیرِ خارجہ کا دورہ مصر ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پورے مسلمانوں کے دو مرکزی مسالک – شیعہ اور سنی - کے درمیان مشرقِ وسطیٰ میں خلیج بڑھتی جارہی ہے۔
دونوں مسالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ شام کا بحران ہے جو ایرانی وزیرِ خارجہ کی قاہرہ میں مصری حکام اور 'عرب لیگ' کے عہدیداران کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کےا یجنڈے میں سرِ فہرست رہا۔
اپنے مصری ہم منصب محمد کمال الامر کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علی اکبر صالحی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک شام میں فریقین کے درمیان جلد مذاکرات ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کو مذاکرات فوری طور پر شروع کرنے ہوں گے قبل اس کے کہ، ان کے بقول، دیر ہوجائے۔
انہوں نے زور دیا کہ شامی بحران کے حل اور فریقین کے اختلافات دور کرانے کے لیے خطے کے ممالک کو بھی بیٹھنا اور بات کرنا ہوگی تاکہ کسی بیرونی فوجی مداخلت کا راستہ روکا جاسکے۔
ایک مصری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایرانی وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اس قابل ہیں کہ وہ خطے کے باہر کی طاقتوں کے بغیر بھی اپنے مسائل خود حل کرسکیں۔
روانی سے عربی بولنے والے ایرانی وزیرِ خارجہ نے مشرقِ وسطیٰ میں شیعہ اور سنّی کی بڑھتی ہوئی تقسیم کے خاتمے کے لیے اس سے قبل گزشتہ برس بھی سعودی عرب، قطر اور مصر کے دورے کیے تھے۔
مشترکہ پریش کانفرنس میں مصر کے وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ شام کے بحران کے حل کے لیے مصری صدر محمد مرسی کا پیش کردہ فارمولا اب بھی قابلِ عمل ہے جس میں انہوں نے ایران، ترکی، مصر اور سعودی عرب سے کہا تھا کہ وہ شامی فریقین کے ساتھ مشترکہ طور پر بات کریں۔
مصری وزیرِ خارجہ نے کہا کہ شامی بحران کے حل میں ایران کو ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔
اپنے دورے کے دوران میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے مصر کی قدیم اسلامی درس گاہ 'جامعہ ازہر' کے سربراہ اور مصر میں بسنے والے قبطی عیسائیوں کے نئے روحانی پیشوا سے بھی ملاقاتیں کیں۔
ایرانی وزیرِ خارجہ کے دورہ مصر کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری کے ساتھ ساتھ شام کی صورتِ حال پر مصری قیادت کے ساتھ تبادلہ خیال کرنا ہے۔
شیعہ اکثریتی ملک ایران کے وزیرِ خارجہ کا دورہ مصر ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پورے مسلمانوں کے دو مرکزی مسالک – شیعہ اور سنی - کے درمیان مشرقِ وسطیٰ میں خلیج بڑھتی جارہی ہے۔
دونوں مسالک کے درمیان کشیدگی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ شام کا بحران ہے جو ایرانی وزیرِ خارجہ کی قاہرہ میں مصری حکام اور 'عرب لیگ' کے عہدیداران کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں کےا یجنڈے میں سرِ فہرست رہا۔
اپنے مصری ہم منصب محمد کمال الامر کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علی اکبر صالحی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک شام میں فریقین کے درمیان جلد مذاکرات ہوتے دیکھنا چاہتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ شامی حکومت اور حزبِ اختلاف کو مذاکرات فوری طور پر شروع کرنے ہوں گے قبل اس کے کہ، ان کے بقول، دیر ہوجائے۔
انہوں نے زور دیا کہ شامی بحران کے حل اور فریقین کے اختلافات دور کرانے کے لیے خطے کے ممالک کو بھی بیٹھنا اور بات کرنا ہوگی تاکہ کسی بیرونی فوجی مداخلت کا راستہ روکا جاسکے۔
ایک مصری ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے ایرانی وزیرِ خارجہ نے مزید کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اس قابل ہیں کہ وہ خطے کے باہر کی طاقتوں کے بغیر بھی اپنے مسائل خود حل کرسکیں۔
روانی سے عربی بولنے والے ایرانی وزیرِ خارجہ نے مشرقِ وسطیٰ میں شیعہ اور سنّی کی بڑھتی ہوئی تقسیم کے خاتمے کے لیے اس سے قبل گزشتہ برس بھی سعودی عرب، قطر اور مصر کے دورے کیے تھے۔
مشترکہ پریش کانفرنس میں مصر کے وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ شام کے بحران کے حل کے لیے مصری صدر محمد مرسی کا پیش کردہ فارمولا اب بھی قابلِ عمل ہے جس میں انہوں نے ایران، ترکی، مصر اور سعودی عرب سے کہا تھا کہ وہ شامی فریقین کے ساتھ مشترکہ طور پر بات کریں۔
مصری وزیرِ خارجہ نے کہا کہ شامی بحران کے حل میں ایران کو ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔
اپنے دورے کے دوران میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے مصر کی قدیم اسلامی درس گاہ 'جامعہ ازہر' کے سربراہ اور مصر میں بسنے والے قبطی عیسائیوں کے نئے روحانی پیشوا سے بھی ملاقاتیں کیں۔