ایران نے امریکہ کی جانب سے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای اور دیگر اعلیٰ حکام پر عائد کی جانے والی سفری پابندیوں پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان پابندیوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان "سفارت کاری کا راستہ بند ہو گیا ہے۔"
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے اعلیٰ ایرانی حکام پر نئی پابندیوں کے نفاذ کی منظوری دی تھی جسے تجزیہ کاروں نے ایک غیر معمولی اور ڈرامائی اقدام قرار دیا ہے۔
امریکہ نے یہ پابندیاں گزشتہ ہفتے ایران کی جانب سے ایک امریکی ڈرون مار گرائے جانے کے ردِ عمل میں عائد کی ہیں۔
امریکی حکام کے مطابق ڈرون کی مالیت 10 کروڑ ڈالر سے زائد تھی اور وہ فضائی نگرانی پر مامور تھا۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ڈرون کو ایرانی فورسز نے آبنائے ہرمز کے علاقے میں بین الاقوامی حدود میں مار گرایا۔ لیکن ایران کا دعویٰ ہے کہ ڈرون اس کی فضائی حدود میں پرواز کر رہا تھا۔
نئی امریکی پابندیوں پر اپنے ردِ عمل میں ایران نے کہا ہے کہ ان بے جا پابندیوں کے نفاذ نے سفارت کاری کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔
ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عباس موسوی نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی بے صبر حکومت اس بین الاقوامی انتظام کو تباہ کرنے کے درپے ہے جو عالمی امن اور سلامتی برقرار رکھنے کا ضامن ہے۔
ایران کے صدر حسن روحانی نے خامنہ ای پر پابندیوں کے نفاذ کو "اشتعال انگیز اور بے سروپا" قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ "وائٹ ہاؤس پر ذہنی پسماندگی مسلط ہے" اور وہاں موجود لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ وہ کرنا کیا چاہتے ہیں۔
امریکی حکام نے ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف پر بھی پابندیوں کے نفاذ کا عندیہ دیا ہے جس پر ایرانی صدر نے سخت برہمی ظاہر کی ہے۔
منگل کو ٹی وی پر نشر کیے جانے والے ایک خطاب میں صدر روحانی نے کہا کہ امریکہ ایک جانب تو مذاکرات کی درخواست کر رہا ہے اور دوسری جانب وہ ایرانی وزیرِ خارجہ پر سفری پابندیاں لگا رہا ہے جو بے وقوفانہ عمل ہے۔
ایران کی جانب سے امریکی پابندیوں کو سفارت کاری کا خاتمہ قرار دیے جانے کے بیان پر تاحال امریکہ کا کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
تاہم، پیر کو پابندیوں کے نفاذ کے بعد صدر ٹرمپ کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے کہا تھا کہ ایران کے ساتھ بات چیت اب بھی ممکن ہے اور امریکہ نے ایران کے لیے دروازہ کھلا چھوڑا ہوا ہے۔