صدر روحانی نے خطاب میں کہا کہ دنیا کا ایک بڑا مسئلہ شدت پسندی ہے لیکن دنیا کے مسائل کا کوئی پر تشدد حل نہیں۔
نیویارک —
منگل کو اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس کے باقاعدہ آغاز کے بعد جس خطاب کا سب سے بے تابی سے انتظار کیا جا رہا تھا وہ تھا ایران کے صدر حسن روحانی کا خطاب۔
مبصرین دیکھنا چاہتے تھے کہ صدر روحانی نے اپنے انتخاب کے بعد سے مغرب اور امریکہ کی طرف مفاہمت کا جو ہاتھ بڑھایا ہے، کیا وہ اس میں واقعی سنجیدہ ہیں اور کیا اس کی جھلک ان کے خطاب میں بھی ملے گی۔
گزشتہ کئی سالوں سے اور خصوصًا سابق صدر احمدی نژاد کے دور میں یہ تقریبًا روایت سی بن گئی تھی کہ ایرانی صدر اپنے خطاب میں کوئی ایسی بات کہہ دیتے تھے جس پر امریکی، اسرائیلی اور چند یورپی وفود احتجاجًا ہال سے اٹھ کر چلے جاتے تھے۔
لیکن اس سال حال کچھ مختلف نظر آیا۔ ایک طرف تو ایرانی صدر کے لہجے میں ماضی کے مقابلے میں مفاہمت کی جھلک نظر آئی تو دوسری طرف امریکی وفد، جس میں اقوام متحدہ کے لیے امریکہ کی نائب سفیر روزمیری ڈیکارلو بھی شامل تھیں، حال میں موجود رہیں۔
صدر روحانی نے خطاب میں کہا کہ دنیا کا ایک بڑا مسئلہ شدت پسندی ہے۔ لیکن دنیا کے مسائل کا کوئی پر تشدد حل نہیں۔
انہوں نے کہا “ہمیں ایک دوسرے کو محض برداشت ہی نہیں کرنا بلکہ برداشت سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایرانی عوام نے انہیں اعتدال اور میانہ روی کے نام پر ووٹ دیے ہیں اور ایران کی خارجہ پالیسی بھی اسی اعتدال کی عکاسی کرے گی اور اسلامی جمہوریہ ایران ایک اہم ملک کی حیثیت سے خطّے میں اور عالمی سطح پر سلامتی کے معاملات میں ذمّہ دارانہ کردار ادا کرے گا اور دیگر ذمّہ دار ممالک کے ساتھ مل کر ان معاملات پر کام کرنے کے لیے تیّار ہے۔
انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی قومی سلامتی میں ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی کردار نہ ہے اور نہ ہوگا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ "ہماری قومی سلامتی کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے ایٹمی پروگرام کے پر امن ہونے کے بارے میں کسی بھی قسم کے خدشات کو دور کریں۔ ’’
صدر روحانی کا کہنا تھا کہ ایران امریکہ سے کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتا۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے جنرل اسمبلی میں صدر اوباما کا خطاب بہت غور سے سنا ہے اور اگر امریکی قیادت اپنے ملک کے ان گروہوں کے سیاسی دباؤ میں آنا چھوڑ دیں جو ایران کے ساتھ جنگ چاہتے ہیں تو دونوں ملکوں کے تفرّقات دور ہو سکتے ہیں۔
اس سے قبل صدر براک اوباما نے اپنے خطاب میں ایرانی صدر کی طرف سے ان بیانات کو خوش آئند قرار دیا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں حاصل کرنا چاہتا اور کہا تھا کہ اگر یہ واضح ہوجائے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پر امن ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی دور کرنے میں خاصی مدد ملے گی۔
مبصرین دیکھنا چاہتے تھے کہ صدر روحانی نے اپنے انتخاب کے بعد سے مغرب اور امریکہ کی طرف مفاہمت کا جو ہاتھ بڑھایا ہے، کیا وہ اس میں واقعی سنجیدہ ہیں اور کیا اس کی جھلک ان کے خطاب میں بھی ملے گی۔
گزشتہ کئی سالوں سے اور خصوصًا سابق صدر احمدی نژاد کے دور میں یہ تقریبًا روایت سی بن گئی تھی کہ ایرانی صدر اپنے خطاب میں کوئی ایسی بات کہہ دیتے تھے جس پر امریکی، اسرائیلی اور چند یورپی وفود احتجاجًا ہال سے اٹھ کر چلے جاتے تھے۔
لیکن اس سال حال کچھ مختلف نظر آیا۔ ایک طرف تو ایرانی صدر کے لہجے میں ماضی کے مقابلے میں مفاہمت کی جھلک نظر آئی تو دوسری طرف امریکی وفد، جس میں اقوام متحدہ کے لیے امریکہ کی نائب سفیر روزمیری ڈیکارلو بھی شامل تھیں، حال میں موجود رہیں۔
صدر روحانی نے خطاب میں کہا کہ دنیا کا ایک بڑا مسئلہ شدت پسندی ہے۔ لیکن دنیا کے مسائل کا کوئی پر تشدد حل نہیں۔
انہوں نے کہا “ہمیں ایک دوسرے کو محض برداشت ہی نہیں کرنا بلکہ برداشت سے آگے بڑھ کر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایرانی عوام نے انہیں اعتدال اور میانہ روی کے نام پر ووٹ دیے ہیں اور ایران کی خارجہ پالیسی بھی اسی اعتدال کی عکاسی کرے گی اور اسلامی جمہوریہ ایران ایک اہم ملک کی حیثیت سے خطّے میں اور عالمی سطح پر سلامتی کے معاملات میں ذمّہ دارانہ کردار ادا کرے گا اور دیگر ذمّہ دار ممالک کے ساتھ مل کر ان معاملات پر کام کرنے کے لیے تیّار ہے۔
انہوں نے ایران کے ایٹمی پروگرام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایران کی قومی سلامتی میں ایٹمی ہتھیاروں کا کوئی کردار نہ ہے اور نہ ہوگا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ "ہماری قومی سلامتی کا تقاضہ ہے کہ ہم اپنے ایٹمی پروگرام کے پر امن ہونے کے بارے میں کسی بھی قسم کے خدشات کو دور کریں۔ ’’
صدر روحانی کا کہنا تھا کہ ایران امریکہ سے کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتا۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے جنرل اسمبلی میں صدر اوباما کا خطاب بہت غور سے سنا ہے اور اگر امریکی قیادت اپنے ملک کے ان گروہوں کے سیاسی دباؤ میں آنا چھوڑ دیں جو ایران کے ساتھ جنگ چاہتے ہیں تو دونوں ملکوں کے تفرّقات دور ہو سکتے ہیں۔
اس سے قبل صدر براک اوباما نے اپنے خطاب میں ایرانی صدر کی طرف سے ان بیانات کو خوش آئند قرار دیا تھا کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہیں حاصل کرنا چاہتا اور کہا تھا کہ اگر یہ واضح ہوجائے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام پر امن ہے تو دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی دور کرنے میں خاصی مدد ملے گی۔
Your browser doesn’t support HTML5