|
ایران نے تین متنازع جزائر پر متحدہ عرب امارات کے دعویٰ کی یورپی یونین کی جانب سے حمایت پر احتجاج کیا ہے۔
تہران کے سرکاری میڈیا نے اتوار کو رپورٹ کیا کہ ایران نے ہنگری کے سفیر کو طلب کیاہے، جس کے پاس اس وقت یورپی یونین کی گردش کرنے والی صدارت ہے۔
اتوار کو سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ اس طلبی کا مقصدایران کے کنٹرول والےجزیروں پر متحدہ عرب امارات کے دعوے پر یورپی یونین-خلیجی تعاون کونسل کی حمایت کے مشترکہ بیان پر احتجاج کرنا تھا۔
بدھ کے روز دونوں علاقائی بلاکس ، یورپی یونین اورخلیج تعاون کونسل کے درمیان ہونے والی پہلی سربراہی ملاقات کے بعد شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ’’ہم ایران سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ متحدہ عرب امارات کے تین جزیروں، بڑے تنب، چھوٹے تنب اور ابو موسیٰ پر اپنا قبضہ ختم کرے، جو متحدہ عرب امارات کی خودمختاری اور اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کے خلاف ورزی ہے۔"
عالمی سطح پر جہاز رانی کے ایک اہم راستے،آبنائے ہرمز کے قریب واقع ان جزائر پر، کئی دہائیوں سے متحدہ عرب امارات اور ایران کے درمیان تنازعہ ہے۔
تہران ان جزائر پر برطانوی سامراج کے خاتمے کے بعد 1971 سے کنٹرول کر رہا ہے۔
SEE ALSO: مشرق وسطیٰ بدامنی کے دوران یورپی یونین اور گلف تعاون کونسل کے 6 رہنماؤں کا پہلا سربراہی اجلاسایران کی سرکاری نیوز ایجنسی، ارنا نے رپورٹ کیاہے کہ "ہنگری کے سفیر کو ایرانی وزارت خارجہ میں طلب کیا گیا تاکہ یورپی یونین اور خلیج تعاون کونسل یا جی سی سی کے رہنماؤں کے مشترکہ اعلامیے میں موجود بعض بے بنیاد دعوؤں کے اعادےکے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔"
ارنا نے مزید کہا کہ وزارت خارجہ نے یورپی یونین کے موقف کو "سوچ، غیر ذمہ دارانہ اور کسی بھی قانونی جواز سے عاری" قرار دیا۔
پیر کے روز یورپی یونین نے تہران پر الزام لگایا ہےکہ وہ روس کو یوکرین کے خلاف جنگ میں استعمال کرنے کے لیے میزائل اور ڈرون فراہم کر رہا ہے اور اس نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
SEE ALSO: خلیج فارس کے بعد آبنائے ہرمز میں بھی امریکی نقل و حرکت، خطے پر کیااثرات ہو سکتے ہیں ؟اپریل 2023 میں، ایران نے خلیجی عرب ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات کو بہتر بنانے کے حصے کے طور پر تقریباً آٹھ برسوں میں پہلی بار متحدہ عرب امارات میں سفیر مقرر کیا تھا۔
دیرینہ تنازعے پر گزشتہ برس کشیدگی میں اضافہ
اس سے قبل اگست 2023 میں ایران کے نیم فوجی ادارے پاسداران انقلاب نے اس وقت خلیج فارس کے متنازعہ جزائر پر اچانک فوجی مشق کا آغاز کیا تھا۔جب امریکی فوج نے تہران کی طرف سے جہازوں پر قبضے کی حالیہ کارروائیوں کے بعد خطے میں اپنی موجودگی بڑھا دی تھی۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ادار ے ارنا نے اطلاع دی تھی کہ یہ مشق بنیادی طور پر ابو موسیٰ جزیرے پر مرتکزتھی حالانکہ پاسداران انقلاب نے تنب بزرگ نامی جزیرے پر بھی اپنی فوجیں اتاری تھیں۔
SEE ALSO: امریکہ کے خطے میں جنگی طیارے بھیجنے کے اعلان کے بعد ایرانی فضائیہ کی مشقیںسرکاری ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس مشق میں چھاتہ برداروں، ڈرونز اور ٹرک کے ذریعے زمین سے سمندر میں مار کرنے والے میزائل سسٹم کے ساتھ چھوٹی تیز رفتار کشتیوں کے دستوں نے حصہ لیا۔
پاسداران انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے اس مشق کے دوران ٹیلیویژن پر خطاب میں کہا کہ ’’ہم ہمیشہ سلامتی اور امن کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ یہی ہمارا راستہ ہے۔ ہماری قوم چوکس ہے، اور وہ تمام خطرات، پیچیدہ بغاوتوں ، خفیہ کارروائیوں اور مخاصمتوں کا سختی سے جواب دیتی ہے۔‘‘
2003 میں متحدہ عرب امارات کاجزیروں پر ایرانی کنٹرول کا اسرائیلی قبضے سےموازنہ
اس وقت متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ نے جزیروں پر ایران کے کنٹرول کا موازنہ، عرب علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے کیا تھا۔
تاہم ایران نے خلیج فارس میں تین جزیروں کی ملکیت کے بارے میں متحدہ عراب امارات کے ساتھ ایک تنازعے کو ‘دوستوں ’ کے درمیان ایک ‘غلط فہمی’سے تعبیر کیا تھا۔
SEE ALSO: ایران:یورپی یونین اور برطانوی پابندیوں کی مذمت،روس کو بیلسٹک میزائل فراہم کرنے کی تردیدتہران میں وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ابو موسیٰ، تُنبِ بزرگ اور تُنبِ کوچک نامی جزیروں کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرلیا جائے گا۔
انہوں نے یہ بات اس وقت کہی جب متحدہ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ نے جزیروں پر ایران کے کنٹرول کا موازنہ، عرب علاقوں پر اسرائیلی قبضے سے کیا تھا۔
متحدہ عرب امارات نے کہا تھا کہ جزیروں پر ایران کی عمل داری ایک ‘شرمناک قبضہ’ ہے۔
ان جزیروں کی ملکیت کا مسئلہ دنوں ملکوں کے درمیان عشروں سے کشیدگی کا ایک سبب بنا ہوا ہے۔
یہ رپورٹ اے ایف پی اور اے پی کی معلومات پر مبنی ہے۔