پاک ایران مشترکہ بحری مشقوں کا آغاز منگل سے ہو رہا ہے جس میں حصہ لینے کے لیے پاکستانی بحریہ کے جہاز ایران کی بندر گاہ بندر عباس پہنچ گئے ہیں۔
اسلام آباد —
پاکستان کے قانون ساز پڑوسی ملک ایران کی پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیے گئے اُس بل کو خوش آئند پیش رفت قرار دے رہے ہیں جس میں دونوں ملکوں کی سرحدی فورسز کے درمیان سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے پر زور دیا گیا ہے۔
اس بل کی منظوری کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑھانے کی راہ ہموار ہونے کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقوں میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ کارروائی میں بھی مدد ملے گی۔
پاکستان اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات میں اُس وقت تلخی آ گئی تھی جب ایران کے پانچ سرحدی محافظوں کو ایرانی حدود کے اندر سے چھ فروری کو شدت پسند گروپ جیش العدل نے اغوا کر لیا تھا۔
یہ گروپ ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں سرگرم ہے۔
ایرانی عہدیداروں کا الزام تھا کہ شدت پسند اُس کے سرحدی محافظوں کو اغوا کر کے پاکستانی حدود میں لے گئے تھے لیکن پاکستان نے اس کی تردید کی تھی۔
گزشتہ ہفتے ایران کے ایک خبر رساں ادارے فارس کے مطابق چار مغوی سرحدی محافظوں کو رہا کر دیا گیا جب کہ اُن کے ایک ساتھی کو اغوا کاروں نے قتل کر دیا تھا۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ ترجمان تسنیم اسلم کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ایران سے ملحقہ صوبہ بلوچستان میں حکام نے یہ تصدیق کی ہے کہ ایرانی سکیورٹی گارڈز کو نا تو پاکستانی حدود میں لایا گیا اور نا ہی یہاں سے اُن کی رہائی عمل میں آئی ہے۔
اُدھر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بھی ایران کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اس بارے میں تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ باہمی مسائل کا حل اسلام آباد اور تہران دونوں کے مفاد میں ہے۔
’’ایسے مسائل جو پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں، دونوں ملکوں کا مفاد اسی میں ہے کہ ان کو باہمی تعاون سے حل کیا جائے۔‘‘
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں ایرانی پارلیمنٹ سے پاکستان کی سرحدی فورسز سے قریبی تعاون کے حق میں بل کی منظوری کے باجود ضروری ہے کہ متعلقہ عہدیدار اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
اُدھر پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق پاک ایران مشترکہ بحری مشقوں کا آغاز منگل سے ہو رہا ہے جس میں حصہ لینے کے لیے پاکستانی بحریہ کے جہاز ایران کی بندر گاہ بندر عباس پہنچ گئے ہیں۔
اس بل کی منظوری کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعاون بڑھانے کی راہ ہموار ہونے کے ساتھ ساتھ سرحدی علاقوں میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف مشترکہ کارروائی میں بھی مدد ملے گی۔
پاکستان اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات میں اُس وقت تلخی آ گئی تھی جب ایران کے پانچ سرحدی محافظوں کو ایرانی حدود کے اندر سے چھ فروری کو شدت پسند گروپ جیش العدل نے اغوا کر لیا تھا۔
یہ گروپ ایران کے صوبے سیستان بلوچستان میں سرگرم ہے۔
ایرانی عہدیداروں کا الزام تھا کہ شدت پسند اُس کے سرحدی محافظوں کو اغوا کر کے پاکستانی حدود میں لے گئے تھے لیکن پاکستان نے اس کی تردید کی تھی۔
گزشتہ ہفتے ایران کے ایک خبر رساں ادارے فارس کے مطابق چار مغوی سرحدی محافظوں کو رہا کر دیا گیا جب کہ اُن کے ایک ساتھی کو اغوا کاروں نے قتل کر دیا تھا۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ ترجمان تسنیم اسلم کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ایران سے ملحقہ صوبہ بلوچستان میں حکام نے یہ تصدیق کی ہے کہ ایرانی سکیورٹی گارڈز کو نا تو پاکستانی حدود میں لایا گیا اور نا ہی یہاں سے اُن کی رہائی عمل میں آئی ہے۔
اُدھر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بھی ایران کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن اس بارے میں تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔
پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک مرکزی رہنما راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ باہمی مسائل کا حل اسلام آباد اور تہران دونوں کے مفاد میں ہے۔
’’ایسے مسائل جو پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں، دونوں ملکوں کا مفاد اسی میں ہے کہ ان کو باہمی تعاون سے حل کیا جائے۔‘‘
تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں ایرانی پارلیمنٹ سے پاکستان کی سرحدی فورسز سے قریبی تعاون کے حق میں بل کی منظوری کے باجود ضروری ہے کہ متعلقہ عہدیدار اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
اُدھر پاکستان کے سرکاری میڈیا کے مطابق پاک ایران مشترکہ بحری مشقوں کا آغاز منگل سے ہو رہا ہے جس میں حصہ لینے کے لیے پاکستانی بحریہ کے جہاز ایران کی بندر گاہ بندر عباس پہنچ گئے ہیں۔