جوہری معاملات پر ایران کے اعلیٰ مذاکرات علی اکبر صالحی نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام پر موجود اہم اختلافات طے پاگئے ہیں اور امید ہے کہ مارچ کے اختتام تک فریقین ایک عبوری معاہدے پر متفق ہوجائیں گے۔
منگل کو ایران کے سرکاری ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جناب صالحی نے کہا کہ فریقین کے درمیان اہم مسائل طے پاچکے ہیں اور انہیں امید ہے کہ باقی ماندہ وقت میں ایک عبوری معاہدے پر اتفاق ہوجائے گا۔
کسی بھی اعلیٰ ایرانی عہدیدار کی جانب سے مجوزہ معاہدے سے متعلق یہ اب تک کا سب سے حوصلہ افزا بیان ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین عبوری معاہدے پر اتفاق کے قریب پہنچ گئے ہیں۔
لیکن ایک سینئر امریکی اہلکار نے نسبتاً محتاط موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیشتر امور پر پیش رفت کے باوجودایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے لیے ابھی بہت کچھ طے ہونا باقی ہے۔
مذاکرات میں شریک ایک امریکی سفارت کار نے صحافیوں کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو فریقین معاہدے پر اتفاقِ رائے کے لیے مہینے کے اختتام تک اپنی بات چیت جاری رکھیں گے۔
سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ایران کے متنازع جوہری پروگرام پر تہران حکومت اور چھ عالمی طاقتوں کے نمائندہ گروپ 'پی5+1' کے درمیان جاری مذاکرات میں رواں ہفتوں کے دوران واضح پیش رفت ہوئی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ فریقین کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق بیشتر تیکنیکی امور پر اتفاقِ رائے ہوگیا ہے اور تنازع سے متعلق بعض سیاسی اختلافات کے حل کے لیے بات چیت جاری ہے ۔
مجوزہ معاہدے کے تحت ایران کے جوہری پروگرام کی عالمی نگرانی میں اضافہ کیا جائے گا اور اس کی جوہری سرگرمیاں اس حد تک محدود کردی جائیں جس کے بعد ایران کے لیے ایٹمی ہتھیار تیار کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ جواباً عالمی طاقتیں ایران پر عائد اقتصادی اور سیاسی پابندیاں بتدریج اٹھالیں گی۔
فریقین نے ایران کے جوہری پروگرام پر عبوری معاہدے کے لیے مارچ کے اختتام اور حتمی معاہدے کے لیے جون کے اواخر کی ڈیڈلائن مقرر کر رکھی ہے۔
ڈیڈلائن سے قبل عبوری معاہدے پر اتفاق کے لیے حالیہ ہفتوں کے دوران ایران اور'پی 5+1' میں شامل ممالک –امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس، چین اور جرمنی - کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوئے ہیں۔
امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری اور ان کے ایرانی ہم منصب محمد جواد ظریف کے درمیان پیر کو سوئٹزرلینڈ کے شہر لاؤزان میں پانچ گھنٹوں تک مذاکرات ہوئے تھے جس کے بعد ایرانی وفد یورپی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے برسلز روانہ ہوگیا تھا۔
برسلز میں موجود یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیڈریکا موغیرینی نے کہا ہے کہ جوہری مذاکرات انتہائِ اہم دور میں داخل ہوگئے ہیں اور آئندہ دو ہفتے بہت اہم ہیں۔