بشمول امریکہ، روس اُن چھ ملکوں میں شامل ہے جو بدھ کو جنیوا میں ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے مزید دور میں شریک ہوگا
واشنگٹن —
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ لگتا یوں ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام پر ایک عشرے سے جاری تعطل کے حل کا ’حقیقی امکان‘ موجود ہے۔
کریملن کی طرف سے پیر کو بتایا گیا کہ مسٹر پیوٹن نے یہ بیان ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ ٹیلی فون گفتگو میں دیا، جس دوران ٕمسٹر روحانی نے مذاکرات میں روس کی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔
بشمول امریکہ، روس اُن چھ ملکوں میں شامل ہے جو بدھ کو جنیوا میں ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے مزید دور میں شریک ہوگا، جس کا مقصد اُس تشویش پر غور کرنا ہے جس کا تعلق اس بات پر ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
ٹیلی فون کال کے بعد، ایران کے صدر نے یہ پیغام ٹوئٹ کیا کہ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کے پچھلے دور میں تمام فریق سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ تاہم، اُنھوں نے متنبہ کیا کہ زیادتیوں پر اُتر آنے سے دونوں کے لیے سودمند نتیجے تک پہنچنے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
مسٹر روحانی نے اپنی ٹوئٹ میں یہ بھی کہا کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں ’پُر امن مقاصد‘ کے لیے اور اقوا م متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے (آئی اے اِی اے) کی نگرانی میں ہو رہی ہیں۔
چھ عالمی طاقتوں میں برطانیہ، فرانس، چین اور جرمنی بھی شامل ہیں جو اس بات کے خواہاں ہیں کہ ایران جوہری افزودکی کی سرگرمیان ترک کرے، جب کہ ایران اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ لگی ہوئی پابندیوں میں نرمی برتی جائے، جن کے باعث اُس کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
کریملن کی طرف سے پیر کو بتایا گیا کہ مسٹر پیوٹن نے یہ بیان ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ ٹیلی فون گفتگو میں دیا، جس دوران ٕمسٹر روحانی نے مذاکرات میں روس کی کوششوں کا خیرمقدم کیا۔
بشمول امریکہ، روس اُن چھ ملکوں میں شامل ہے جو بدھ کو جنیوا میں ایران کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے مزید دور میں شریک ہوگا، جس کا مقصد اُس تشویش پر غور کرنا ہے جس کا تعلق اس بات پر ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
ٹیلی فون کال کے بعد، ایران کے صدر نے یہ پیغام ٹوئٹ کیا کہ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات کے پچھلے دور میں تمام فریق سمجھوتے کے قریب پہنچ چکے تھے۔ تاہم، اُنھوں نے متنبہ کیا کہ زیادتیوں پر اُتر آنے سے دونوں کے لیے سودمند نتیجے تک پہنچنے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
مسٹر روحانی نے اپنی ٹوئٹ میں یہ بھی کہا کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں ’پُر امن مقاصد‘ کے لیے اور اقوا م متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے (آئی اے اِی اے) کی نگرانی میں ہو رہی ہیں۔
چھ عالمی طاقتوں میں برطانیہ، فرانس، چین اور جرمنی بھی شامل ہیں جو اس بات کے خواہاں ہیں کہ ایران جوہری افزودکی کی سرگرمیان ترک کرے، جب کہ ایران اس بات کے لیے کوشاں ہے کہ لگی ہوئی پابندیوں میں نرمی برتی جائے، جن کے باعث اُس کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔