ایران کے صدر محمود احمدی نژاد لبنانی راہنماؤں سے ملاقات اور ملک کی طاقتور ترین مسلح فورس کو کنٹرول کرنے والے حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کے ساتھ اپنی حمایت کے اظہار کے لیے لبنان میں ہیں۔
مسٹر احمدی نژاد 2005ء میں عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد لبنان کے پہلے دورے پر بدھ کو بیروت کے ہوائی اڈے پر پہنچے ۔ ان کے استقبال کے لیے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جن میں اکثریت حزب اللہ کے حامیوں کی تھی، دارالحکومت کی سڑکوں پر موجود تھے۔ ہوائی اڈے کے راستے پر رنگ برنگے غبارے، ایرانی پرچم اور صدر احمدی نژاد کی تصاویر آویزاں ہیں۔
ایرانی صدر اپنے لبنانی ہم منصب مائیکل سلیمان ،وزیراعظم سعد حریری اورحزب اللہ کے رہنماؤں سے بات چیت کریں گے۔ شیعہ اکثریتی آبادی کا ملک ایران، شیعہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کا سب سے بڑا حامی ہے۔
مسٹر احمدی نژاد کی لبنان میں مصروفیات میں جمعرات کو جنوبی لبنان میں اس گاؤں کا دورہ بھی شامل ہے جو حزب اللہ کی اسرائیل سے 2006ء میں ہونے والی جنگ میں تباہ ہوگیا تھا۔ اس کے علاوہ توقع ہے کہ وہ اس سرحدی علاقے کا دورہ بھی کریں گے جہاں جزب اللہ کے حامی اسرائیل کی طرف پتھر پھینکتے ہیں۔
علاوہ ازیں ایرانی صدر کا وفد لبنان کے ساتھ پانی اور توانائی کے شعبوں میں سمجھوتوں پر دستخط بھی کرے گا۔
ایرانی صدر بارہا اسرائیل کی تباہی سے متعلق بیان دے چکے ہیں۔ اسرائیل ایرانی حکومت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے میں مصروف ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کے لیے خطرہ ہیں۔ ایران کے مطابق اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔
اوباما انتظامیہ ایران کو خطے میں کسی بھی طرح کی مداخلت سے خبردار کر چکی ہے۔ واشنگٹن ایران پر لبنان کی قومی متحدہ حکومت کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کرتا ہے لیکن اس کا کہنا ہے کہ وہ تہران کے ساتھ تعلقات بڑھانے کے بیروت کے حق کا احترام کرتا ہے۔
مغرب کی حمایت یافتہ لبنانی پارلیمنٹ کے بعض ممبران نے حزب اللہ کی حمایت پر مسٹر احمدی نژاد پر تنقید کی ہے۔ یہ عسکریت پسند گروپ لبنان کے مستقبل کی پالیسی کے بارے میں مغرب نواز وزیراعظم سعد حریری کے ساتھ سیاسی تنازع میں مصروف ہے۔