مردانہ لباس میں اسٹیڈیم داخلے کی کوشش میں ناکامی پر ایرانی لڑکی کی خودکشی

ایران میں خواتین پر یہ پابندی ہے کہ وہ اسٹیڈیم میں جا کر مردوں کے کھیلوں کے مقابلے نہیں دیکھ سکتیں۔

ایران کی ایک خاتون فٹ بال پرستار جو مردوں کا لباس پہن کر اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے کی کوشش میں پکڑی گئی تھیں، انہوں نے سزا کے خوف میں خود کو آگ لگا لی جس کے ایک ہفتے بعد وہ دم توڑ گئیں۔

سحر خدایاری نے گزشتہ ہفتے تہران کی ایک عدالت کے سامنے خود کو اس وقت آگ لگالی تھی جب انہیں پتا چلا کہ انہیں مردوں کے لباس میں میچ دیکھنے کے الزام میں دو سال کی سزا ہو سکتی ہے۔

خود سوزی کے سبب ان کا 90 فیصد جسم بری طرح جل گیا یہاں تک کہ ان کے دونوں پھیپھڑے بھی ضائع ہو گئے۔ وہ ایک ہفتے تک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد پیر کو انتقال کر گئیں۔

29 سالہ سحر نے تہران کے آزادی اسٹیڈیم میں اے ایف سی چیمپئن لیگ کے تحت استقلال ایف سی اور عرب امارات کی ریاست العین کے درمیان کھیلا جانے والا فٹ بال میچ دیکھنے کے لیے مردانہ لباس میں اسٹیڈیم میں داخلے کی کوشش کی تھی۔

انتظامیہ نے مشکوک جانتے ہوئے انہیں حراست میں لے لیا تھا۔

ایران میں خواتین پر یہ پابندی ہے کہ وہ اسٹیڈیم میں جا کر مردوں کے کھیلوں کے مقابلے نہیں دیکھ سکتیں۔

سحر کے اہل خانہ نے واقعے کے اگلے روز ہی ضمانت کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا تاہم ہفتے کے اختتام پر انہوں نے عدالت کے سامنے ہی خود سوزی کی کوشش کی۔

ان کے اہل خانہ نے بتایا کہ اس واقعے نے سحر کے ذہن پر بہت برا اثر ڈالا تھا، وہ بیمار ہو گئی تھیں جب کہ وہ عرصے سے ذہنی دباؤ کا شکار بھی تھیں اور ماضی میں بھی ایک مرتبہ اس نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔

بلو گرل:

ایران کے سوشل میڈیا پر سحر کو 'ہیش ٹیگ بلو گرل' کے نام سے شہرت مل رہی ہے کیوں کہ ان کی ٹیم کے کھلاڑیوں کی جرسی نیلے رنگ کی ہے۔

اس واقعے کے بعد ان گنت ایرانی شہریوں نے خواتین کے اسٹیڈیم میں میچ دیکھنے پر عائد پابندی پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔

ٹوئٹر صارف ہادی نیلی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ایرانی اس لڑکی کی یاد میں دختر آبی کا ہیش ٹیگ استعمال کر رہے ہیں جس نے اسٹیڈیم میں جا کر فٹ بال میچ دیکھنے کی کوشش کی تھی اور عدالت سے سزا سنائے جانے پر خود سوزی کر لی۔

ایک سینئر صحافی محمد موسید نے ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ ایک دن ملک کا سب سے بڑا اسٹیڈم بلو گرل کے نام سے منسوب ہوگا جو ہمارے پوتے پوتیوں کو یاد دلائے گا کہ ہم اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے کن کن مشکل راستوں سے گزرے تھے۔

ایک اور ٹوئٹ میں حانیہ نفتالی نے سحر کی قبر کی تصویر جاری کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایرانی حکومت کی نظر میں وہ مجرم ہے جب کہ میری نظر میں وہ ایک ہیرو ہے۔

ایرانی صحافی مسیح علی نژاد نے سحر کی تصویر کے ساتھ اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ اس کا جرم صرف اتنا تھا کہ اس نے میچ دیکھنے کے لیے اسٹیڈیم میں گھسنے کی کوشش کی تھی۔