شام: یرغمالی زائرین میں سابق ایرانی فوجی شامل ہیں

.

ایران نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے ان 48 شہریوں میں 'پاسدارانِ انقلاب' اور ایرانی افواج کے بعض سابق فوجی اہلکار بھی شامل ہیں جنہیں شامی باغیوں نے گزشتہ ہفتے دمشق سے اغوا کرلیا تھا۔
ایران نے اعتراف کیا ہے کہ اس کے ان 48 شہریوں میں 'پاسدارانِ انقلاب' اور ایرانی افواج کے بعض سابق فوجی اہلکار بھی شامل ہیں جنہیں شامی باغیوں نے گزشتہ ہفتے دمشق سے اغوا کرلیا تھا۔

تاہم ایرانی وزیرِ خارجہ علی اکبر صالحی نے اپنے ملک کے اس موقف کو دہرایا ہے کہ تمام افراد زائرین تھے جو مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے شام گئے تھے۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی 'اِسنا' کی جانب سے بدھ کو جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق ایرانی وزیرِ خارجہ نے شامی باغیوں کے اس موقف کی تردید کی ہے کہ مغوی ایرانی شہریوں میں فوج کے حاضر سروس اہلکار بھی ہیں۔

یاد رہے کہ شامی باغیوں کی تنظیم 'فری سیرین آرمی' نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کی تحویل میں موجود مغوی ایرانی شہری ایرانی فوجی دستے 'پاسدارانِ انقلاب' کے اہلکار ہیں جو ان کی جاسوسی کے لیے شام آئے تھے۔

دریں اثنا شامی حزبِ اختلاف کی حامی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس' نے اطلاع دی ہے ملک کے سب سے بڑے شہر حلب میں باغیوں اور سرکاری افواج کے مابین جھڑپوں میں بدھ کو شدت آگئی ہے۔

تنظیم کے مطابق حالیہ لڑائی کا آغاز باغیوں کی جانب سے شہر کے بعض حصوں پر قبضے کے بعد ہوا تھا جس میں ہر گزرتے روز کے ساتھ شدت آرہی ہے۔

انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' نے حلب اور اس کے مضافات کی بعض سیٹلائٹ تصاویر جاری کی ہیں جن سے، تنظیم کے موقف کے مطابق، ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں بھاری اسلحہ استعمال کیا گیا ہے۔

تنظیم نے باغیوں او رشامی افواج کو خبردار کیا ہے کہ ان کی جانب سے عام شہریوں کو نشانہ بنانے کی کاروائیوں کو "واضح طور پر ریکارڈ" کیا جائے گا۔

ادھر شامی صدر بشار الاسد بدستور اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور انہوں نے گزشتہ روز بھی اپنے ایک بیان میں ملک کو "دہشت گردوں" سے پاک کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔

اسد حکومت باغیوں اور حزبِ مخالف کے کارکنوں کے لیے "دہشت گرد" کی اصطلاح استعمال کرتی آئی ہے۔