پشاور: پادری کےقتل کے ملزمان گرفتار نہ ہو سکے، داعش کے ملوث ہونے کا شبہ


پشاور میں چند روز قبل مسیحی پادری کے قتل کے بعد سیکیورٹی سخت کر دی گئی ہے، تاہم پادری ولیم سراج کے قتل میں ملوث کسی بھی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں لائی جا سکی۔ حکام نے واقعے میں شدت پسند تنظیم داعش کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔

خیال رہے کہ اتوار کو پشاور کے علاقے چمکنی میں رنگ روڈ پر نامعلوم افراد کی فائرنگ سے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ایک پادری ہلاک جب کہ دوسرے زخمی ہو گئے تھے۔

ُپولیس کے مطابق ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی اور نہ کسی فرد یا گروہ نے اس قتل کی ذمے داری قبول کی ہے۔

داعش کے ملوث ہونے کا شبہ

محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے سربراہ ڈی آئی جی جاوید اقبال نے پیر کو ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ تاحال قاتلوں کا سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے، لیکن ان کے مطابق یہ طے ہے کہ یہ واقعہ دہشت گردی کا ہے اور ممکن ہے کہ اس میں داعش خراساں ملوث ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں پچھلے پانچ چھ ماہ میں ٹارگٹ کلنگ کے تقریباً 80 فی صد حملوں میں داعش کا ہاتھ رہا ہے۔ پچھلے سال اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ستنام سنگھ کے قتل میں بھی یہی تنظیم ملوث تھی۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستانی تاجروں کو افغانستان سے بھتے کی کالز میں اضافہٹی ٹی پی سے نمٹنے میں افغان طالبان پاکستان کی مدد کیوں نہیں کر رہے؟خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے شدت پسندوں کی کوششیں، کب کیا ہوا؟پاکستانی فوج کے زیرِ انتظام حراستی مراکز کو کیا اب بھی قانونی تحفظ حاصل ہے؟

چمکنی تھانے میں درج ایف آئی آر کے مطابق ہزار خوانی میں واقع چرچ کے پاسٹر ولیم سراج، پاسٹر پیٹرک نعیم اور عنایت پر اتوار کو اس وقت نامعلوم افراد نے فائرنگ کر دی جب کہ وہ عبادت ختم کر کے لگ بھگ دوپہر ڈیڑھ بجے ایک گاڑی میں چرچ سے نکلے تھے۔

تھانہ چمکنی کے نائب محرر معراج گل نے بتایا کہ حملے میں زخمی ہونے والے پادری پیٹرک نعیم کی مدعیت میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 302، 324،34،427 اور انسداد ِ دہشت گردی قانون کی سیکشن سات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں پادری پیٹرک نعیم نے کہا کہ ’وہ چرچ میں عبادت کے بعد پادری ولیم سراج اور عنایت کے ہمراہ جا رہے تھے اور پادری ولیم سراج ان کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر تھے۔ جیسے ہی ان کی گاڑی ایک پیٹرول پمپ کے قریب پہنچی تو دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی۔

انہوں نے بتایا: ’دونوں مسلح افراد میں سے ایک نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا، جب کہ دوسرے نے چادر پہن رکھی تھی۔

انہوں نے پولیس کو بتایا کہ ولیم سراج کے سر اور جسم کے دوسرے حصوں میں گولیاں لگیں اور انہیں 1122 کی مدد سے اسپتال پہنچانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ راستے میں دم توڑ گئے۔

پادری پیٹرک نعیم نے ایف آئی آر میں بتایا کہ ’ہماری کسی کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں ہے، معاملہ ملک دشمن عناصر کا معلوم ہوتا ہے۔‘

اس حملے میں پیٹرک معمولی زخمی ہوئے جبکہ عنایت جو گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے محفوظ رہے۔

جائے وقوعہ صوبائی اسمبلی سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے جہاں سرکاری عمارتیں، دکانیں اور پلازے بنے ہوئے ہیں اور ہر وقت لوگوں کا رش رہتا ہے۔

ولیم سراج کون تھے؟


ولیم سراج کے رشتہ دار اور سینٹ جانز کیتھڈرل کے پادری جوزف جان نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ ان کی عمر 60 سال سے زائد تھی اور ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ولیم سراج کے داماد 2013 میں پشاور کے چرچ دھماکوں میں ہلاک ہوئے تھے اور ان کے تین بچے بھی ولیم کی کفالت میں تھے۔

حالیہ تاریخ ظا ہر کرتی ہے کہ اس سے قبل بھی پشاور سمیت خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں مسیحی برادری کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

ستمبر 2013 میں پشاور کے کوہاٹی گیٹ میں واقع چرچ میں خوفناک خود کش حملے میں 127 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمے داری کالعدم تنظیم جنداللہ نے قبول کی تھی۔