افغانستان کے سیاستدانوں، سول سوسائٹی اور صحافیوں کی طالبان نمائندوں سے ملاقات کے لیے قطر اور جرمنی کی مشترکہ میزبانی میں دو روزہ بین الافغان کانفرنس دوحہ میں ہو رہی ہے۔ طالبان ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں جنگ بندی پر بھی بات چیت کی جائے گی۔
کانفرنس کا مقصد افغانستان کے مختلف طبقوں کو طالبان سے ملاقات کا موقع دے کر افغان تصفیے کا حل تلاش کرنا ہے۔
بین الافغان اجلاس میں افغانستان سے 50 مندوبین شریک ہیں جن میں سیاستدان، سول سوسائٹی اور معتبر صحافیوں سمیت خواتین بھی شامل ہیں۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں 80 فیصد پیش رفت ہو چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ افغان کانفرنس کے بعد نو جولائی کو مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو گا۔
طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ بین الافغان کانفرنس میں مختلف امور پر تبادلہ خیال ہو گا جس میں جنگ بندی بھی شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں بعض حل طلب معاملات پر گفتگو ہونا باقی ہے۔
طالبان افغان حکومت سے مذاکرات سے انکار کرتے رہے ہیں۔ ان کے بقول افغان حکومت امریکہ کی کٹھ پتلی حکومت ہے۔ لہذا فیصلہ سازی کا اختیار بھی امریکہ کے پاس ہے۔ تاہم وہ انفرادی حیثیت میں افغانستان کے مختلف سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے اہم اراکین سے ملاقات کے لیے تیار ہو گئے تھے۔
افغانستان میں قیام امن کے لیے امریکہ اور طالبان کے درمیان اب تک مذاکرات کے 7 ادوار ہو چکے ہیں۔ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد قطر میں افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔
جرمنی اور قطر کے علاوہ روس اور چین بھی افغان تنازعہ کے پرامن حل کے لیے کوشاں ہیں۔ طالبان رہنماؤں کے ایک وفد نے حال ہی میں چین کا دورہ بھی کیا تھا۔
پاکستان نے بھی چند روز قبل مری کے پرفضا مقام بھوربھن میں ایک افغان کانفرنس کا اہتمام کیا تھا جسے 'لاہور پراسیس' کا نام دیا گیا تھا جس میں افغانستان کی سیاسی قیادت سمیت لگ بھگ 57 مندوبین نے شرکت کی تھی۔
افغان ہائی پیس کونسل کے نائب سربراہ حاجی دین محمد کا کہنا ہے کہ کونسل کے چار عہدیدار اور قومی سلامتی کے سابق مشیر ڈاکٹر رنگین سپانتا اور سابق نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی بھی دوحہ کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔
سابق افغان صدر حامد کرزئی اس اجلاس میں شریک نہیں ہیں۔ تاہم انھوں نے قطر اور جرمنی کی میزبانی میں ہونے والے اس اجلاس کا خیر مقدم کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اس سے افغان تصفیے کے حل میں مدد ملے گی۔
پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر عمر زخیلوال نے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا کہ بین الافغان کانفرنس کا مقصد امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کو آگے بڑھانا ہے۔
خیال رہے کہ رواں سال اپریل میں بھی اسی نوعیت کی ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تاہم مندوبین کی تعداد کے معاملے پر اختلافات کے باعث یہ التوا کا شکار ہو گئی تھی۔