امریکہ کے نمائندۂ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے توقع ظاہر کی ہے کہ آئندہ چند روز کے دوران طالبان قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونے کے بعد قطر کے دارالحکومت دوحہ میں بین الافغان امن مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔
زلمے خلیل زاد کا یہ بیان اتوار کو کابل میں ہونے والے افغان مشاورتی لویہ جرگہ کی طرف سے جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے کے بعد سامنے آیا ہے۔
لویہ جرگے نے افغان حکومت سے اُن 400 طالبان قیدیوں کی رہائی کی سفارش کی تھی جو میبنہ طور پر سنگین جرائم میں ملوث رہے ہیں۔
زلمے خلیل زاد نے لویہ جرگے کے اعلامیے اور افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی کے حکم نامے پر دستخط کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔
افغان حکومت کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ صدر اشرف غنی پیر کو طالبان قیدیوں کی رہائی کے حکم نامے پر دستخط کر دیں گے جس کے بعد بین الافغان مذاکرت قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک ہفتے کے اندر شروع ہو جائیں گے۔
تاہم افغان حکومت کی طرف سے باضابطہ طور پر اس بار ے میں تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق دوحہ آفس کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ وہ اپنے قیدیوں کی رہائی کے ایک ہفتے کے اندر بات چیت کے لیے تیار ہیں۔
امریکہ کے نمائندۂ خصوصی زلمے خلیل زاد نے اتوار کو متعدد ٹوئٹس میں کہا ہے کہ قیدیوں کی رہائی کے جرأت مندانہ اقدامات کی وجہ سے 40 سالہ طویل جنگ کے بعد امن کا ایک ایسا تاریخی امکان پیدا ہو گیا ہے جو ان کے بقول سب افغانون کے مفاد میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الافغان مذاکرات علاقائی استحکام اور عالمی سیکیورٹی کا موجب بنیں گے۔
خلیل زاد نے توقع کی کہ آئندہ چند روز میں قیدیوں کی رہائی کا عمل مکمل ہونے کے بعد افغانستان کی مذکرات ٹیم دوحہ جائے گی جہاں بین الافغان مذاکرات فوری طور پر شروع ہو جائیں گے۔
اُن کے بقول فریقین افغان جنگ کے خاتمے کے لیے ایک سیاسی لائحہ عمل اور جنگ بندی کے لیے معاہدے کا عمل شروع کریں گے۔
زلمے خلیل زاد نے کہا کہ جس طرح امریکہ نے گزشتہ 19 برسوں کے دوران افغان عوام کی حمایت کی ہے اسی طرح اب بھی پائیدار امن کے لیے امریکہ افغان مرد و خواتین کی مدد جاری رکھے گا جس کے وہ طویل عرصے سے آرزو مند تھے۔
اُن کا کہنا تھا کہ امریکہ ایک خود مختار، متحد اور جمہوری افغانستان کا خواہش مند ہے جو دنیا کے لیے خطرے کی علامت نہ ہو۔ ان کے بقول یہ منزل حاصل کرنے کے لیے ہم ایک اور قدم قریب ہو گئے ہیں۔
یاد رہے کہ طالبان بین الافغان مذاکرات سے پہلے اپنے پانچ ہزار قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے آ رہے تھے لیکن افغان حکومت 400 قیدیوں کی رہائی پر تیار نہیں تھی۔
SEE ALSO: لویہ جرگہ کی سفارش: افغان صدر کا بقیہ 400 طالبان قیدی رہا کرنے کا اعلانافغان امور کے تجزیہ کار اور صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ قیدیوں سے متعلق طالبان کا ایک بڑا اور اہم مطالبہ مان لیا گیا ہے اس لیے بین الافغان مذکرات کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ طالبان کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے قیدیوں کی رہائی کے ایک ہفتے کے اندر بات چیت شروع کر سکتے ہیں۔
اُن کے بقول طالبان ذرائع نے اُنہیں بتایا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ بات چیت ایک ہفتے سے پہلے بھی شروع ہو سکتی ہے۔
طاہر خان نے کہا کہ افغان حکومت اور طالبان کی طرف سے بین الافغان مذاکرات کے لیے تیاری ہو چکی ہے۔ فریقین کے درمیان مذاکرات کا پہلا اجلاس فریقین کی مذاکراتی ٹیموں کے تعارف اور بات چیت کا ایجنڈا تجویز کرنے تک محدود رہنے کی توقع ہے۔
اُن کے بقول طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بات چیت کا عمل اگرچہ پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ عمل حتمی تصفیے تک جاری رہے گا۔