یوں تو امیتابھ بہت زیادہ پبلسٹی اور میڈیا میں آنے سے گریز کرتے ہیں، لیکن آج کل وہ اپنی فلم ’بھوت ناتھ ریٹرنز‘ کی پبلسٹی بہت زور و شور سے کررہے ہیں۔ ایک انٹرویو میں امیتابھ نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا
کراچی —
بالی وڈ میں ’اینگری ینگ مین‘ کا ٹرینڈ سیٹ کر کے کئی بلاک بسٹر فلمیں دینے والے میگا اسٹار، امیتابھ بچن 71سال کی عمر میں بھی اتنے ہی چاق و چوبند ہیں، جتنے وہ نوجوانی میں تھے ۔ بڑھتی عمر نے ان کی اسٹار ویلیو میں کمی نہیں، اضافہ کیا ہے اور آج بھی ان کے پاس کام کی کوئی کمی نہیں۔
یوں تو امیتابھ بہت زیادہ پبلسٹی اور میڈیا میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن، آج کل وہ اپنی فلم ’بھوت ناتھ ریٹرنز‘ کی پبلسٹی بہت زور و شور سے کر رہے ہیں۔ بھارتی ویب سائٹ ’انڈیا ٹوڈے‘ کو دئیے گئے انٹرویو میں امیتابھ نے کھل کر اپنے خیالات اپنے چاہنے والوں کی دلچسپی کے لئے شیئر کئے۔
آپ آج کل ’بھوت ناتھ ریٹرنز‘ کی پروموشن کے لئے اکثر ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟
امیتابھ: آج کل کے زمانے میں مارکیٹنگ ایک اہم ٹول کی حیثیت رکھتی ہے۔ ٹی وی بھی پھل پھول رہا ہے۔ پہلے صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل ہوتا تھا، جبکہ آج 500، 600 چینلز ہیں۔ پہلے فلمیں پچیس، پچاس یا 75ہفتوں تک بھی سینما میں لگی رہتیں تھیں اور لوگ کئی کئی بار ایک ہی فلم دیکھنے جایا کرتے تھے۔ لیکن، اب ایسا نہیں۔فلم ایک یا دو ہفتے لگتی ہے اور اسی میں سب زیادہ سے زیادہ بزنس کرنا چاہتے ہیں۔ ٹی وی اور یوٹیوب نے مقابلہ سخت کردیا ہے۔پروموشن کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
تو کیسا رہا یہ تجربہ؟
شروع شروع میں تو بہت عجیب لگتا تھا۔ ہم پرانے زمانے کے لوگ ہیں۔ لیکن، میرا یہ ماننا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنا چاہئے۔
آپ انٹرنیشنل لیول پر بھارتی سینما کو کیسا دیکھتے ہیں؟
بھارتی سینما کا اپنا ایک چارم، ایک اہمیت ہے۔ ہماری فلموں پر ابتدا ہی سے بیرونی ملکوں میں تنقید کی جاتی ہے اور خصوصاً اس لئے کہ فلموں میں گانے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ 70 اور80 کی دہائی میں بھی تھا جب ہم شوٹنگ کے لئے بیرون ملک جایا کرتے تھے۔ ہم اپنے کلچر اور اپنے ماحول کے حساب سے فلمیں بناتے ہیں جسے غیرملکی نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ان کا ماحول مختلف ہے۔ بیرون ممالک میں اگر ایک یا ڈیڑھ کروڑ لوگ کوئی پروگرا م یا فلم دیکھ لیں تو سمجھا جاتا ہے کہ بڑا سنگ میل عبور کرلیا۔ پہلے وہ زیادہ آبادی کی وجہ سے ہمیں کمتر سمجھتے تھے۔ لیکن، اب یہی ہمارا ’یونیک سیلنگ پوائنٹ‘ بن گیا ہے؛ اور غیرملکی فلم پروڈیوسرز اور کمپنیاں بھی بھارت کا رخ کررہی ہیں۔
پینتالیس سال فلم انڈسٹری میں گزار لئے۔ کیا اب بھی کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے پریشانی ہوتی ہے؟
بالکل ہوتی ہے۔ہر زور جب میں کام کے لئے نکلتا ہوں نروس ہوتا ہوں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ اب میرے لئے سب کچھ آسان ہے۔
الیکشن کا زمانہ ہے۔ بہت سے فلم اسٹارز سیاست میں آچکے ہیں یا سیاسی مہم کا حصہ ہیں۔ آپ کو کسی نے آفر کی؟
نہیں۔مجھے سیاست چھوڑے زمانہ ہوا۔
کسی دوست نے حمایت کی درخواست کی؟
دوستوں کو معلوم ہے، میں سیاست چھوڑ چکا ہوں۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم سے کسی کے لئے ایک لفظ بھی نہیں کہوں گا۔
کون سا ایسا کیریکٹر ہے جو کرنے کی خواہش ہے؟
میری خواہش تو یہ ہے کہ مجھے کام ملتا رہے۔ مجھے کام کرکے خوشی ملتی ہے۔ لیکن، ڈائریکٹرز کو فلم کے لئے ریسرچ کرنے اور سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ ہرکوئی سا کیریکڑ لے آئیں گے تو پھر مجھے دیکھنا پڑے گا کہ رول چیلنجنگ بھی ہے یا نہیں۔
کیریکٹر کے انتخاب میں کیا چیزیں دیکھتے ہیں؟
فلم کی کہانی۔ میرا کردار۔ کون پروڈیوز اور کون ڈائریکٹ کر رہا ہے۔ بہت سی باتیں ذہن میں ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ان باتوں کا پتہ بھی نہیں ہوتا۔ مجھے بھی اب تک فلم بزنس کا پوری طرح پتا نہیں لگ سکا۔
اس معاملے میں آپ نئی جنریشن کو کیسا پاتے ہیں؟
آج کے دور کے ایکٹروں کو بہت زیادہ معلومات ہیں۔ ان میں سے بہت سے خود فلمیں پروڈیوس کرتے ہیں اور ان کی اپنی کمپنیز ہیں۔ شاہ رخ، ریتھک، عامر ہوں یا سلمان۔ یہ بات قابل تعریف ہیں کہ یہ لوگ بزنس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ لیکن، میں کچھ خاص نہیں جانتا۔
کوئی ایسا کردار جس کے کرنے پر پچھتاوا ہو؟
نہیں۔ ایسا کوئی کردار نہیں۔ میں نے بہت سی فلمیں کیں اور سب پر ہی مجھے فخر ہے۔
آپ کو لفظ ’بالی وڈ ‘ پسند نہیں؟
جی۔ میرے خیال میں یہ اچھا نام نہیں۔
لیکن یہ تو خاصا مقبول ہے؟
مقبولیت کو بھول جائیں۔ یہ لفظ تو اب ڈکشنری میں بھی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، مجھے یہ پسند نہیں۔
آپ کے اور آپ کے خاندان کے بارے میں جو گوسپ چھپتی ہیں آپ اس سے پریشان ہوتے ہیں؟
ہم جس بزنس میں ہیں اس میں پبلک سے جڑنا پڑتا ہے اور اسی لئے لوگ ہمارے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ہم کیا کھاتے ہیں، کیا پیتے ہیں، کیسے رہتے ہیں، کیا پہنتے ہیں۔اسی لئے ایسی خبریں چھپتی ہیں۔
آپ اس عمر میں بھی اتنے ایکٹو کیسے ہیں؟
میرے خیال میں جب تک میرا جسم اور طاقت ساتھ دے گی، مجھے کام کرتے رہنا چاہئے۔
آپ ابھیشیک اور ایشوریہ کو کام کے حوالے سے کوئی نصیحت کرنا چاہیں گے؟
بالکل نہیں۔۔ وہ خود سمجھدار ہیں۔
یوں تو امیتابھ بہت زیادہ پبلسٹی اور میڈیا میں آنے سے گریز کرتے ہیں۔ لیکن، آج کل وہ اپنی فلم ’بھوت ناتھ ریٹرنز‘ کی پبلسٹی بہت زور و شور سے کر رہے ہیں۔ بھارتی ویب سائٹ ’انڈیا ٹوڈے‘ کو دئیے گئے انٹرویو میں امیتابھ نے کھل کر اپنے خیالات اپنے چاہنے والوں کی دلچسپی کے لئے شیئر کئے۔
آپ آج کل ’بھوت ناتھ ریٹرنز‘ کی پروموشن کے لئے اکثر ٹی وی پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟
امیتابھ: آج کل کے زمانے میں مارکیٹنگ ایک اہم ٹول کی حیثیت رکھتی ہے۔ ٹی وی بھی پھل پھول رہا ہے۔ پہلے صرف ایک سرکاری ٹی وی چینل ہوتا تھا، جبکہ آج 500، 600 چینلز ہیں۔ پہلے فلمیں پچیس، پچاس یا 75ہفتوں تک بھی سینما میں لگی رہتیں تھیں اور لوگ کئی کئی بار ایک ہی فلم دیکھنے جایا کرتے تھے۔ لیکن، اب ایسا نہیں۔فلم ایک یا دو ہفتے لگتی ہے اور اسی میں سب زیادہ سے زیادہ بزنس کرنا چاہتے ہیں۔ ٹی وی اور یوٹیوب نے مقابلہ سخت کردیا ہے۔پروموشن کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
تو کیسا رہا یہ تجربہ؟
شروع شروع میں تو بہت عجیب لگتا تھا۔ ہم پرانے زمانے کے لوگ ہیں۔ لیکن، میرا یہ ماننا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنا چاہئے۔
آپ انٹرنیشنل لیول پر بھارتی سینما کو کیسا دیکھتے ہیں؟
بھارتی سینما کا اپنا ایک چارم، ایک اہمیت ہے۔ ہماری فلموں پر ابتدا ہی سے بیرونی ملکوں میں تنقید کی جاتی ہے اور خصوصاً اس لئے کہ فلموں میں گانے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ 70 اور80 کی دہائی میں بھی تھا جب ہم شوٹنگ کے لئے بیرون ملک جایا کرتے تھے۔ ہم اپنے کلچر اور اپنے ماحول کے حساب سے فلمیں بناتے ہیں جسے غیرملکی نہیں سمجھ سکتے کیونکہ ان کا ماحول مختلف ہے۔ بیرون ممالک میں اگر ایک یا ڈیڑھ کروڑ لوگ کوئی پروگرا م یا فلم دیکھ لیں تو سمجھا جاتا ہے کہ بڑا سنگ میل عبور کرلیا۔ پہلے وہ زیادہ آبادی کی وجہ سے ہمیں کمتر سمجھتے تھے۔ لیکن، اب یہی ہمارا ’یونیک سیلنگ پوائنٹ‘ بن گیا ہے؛ اور غیرملکی فلم پروڈیوسرز اور کمپنیاں بھی بھارت کا رخ کررہی ہیں۔
پینتالیس سال فلم انڈسٹری میں گزار لئے۔ کیا اب بھی کیمرے کا سامنا کرتے ہوئے پریشانی ہوتی ہے؟
بالکل ہوتی ہے۔ہر زور جب میں کام کے لئے نکلتا ہوں نروس ہوتا ہوں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ اب میرے لئے سب کچھ آسان ہے۔
الیکشن کا زمانہ ہے۔ بہت سے فلم اسٹارز سیاست میں آچکے ہیں یا سیاسی مہم کا حصہ ہیں۔ آپ کو کسی نے آفر کی؟
نہیں۔مجھے سیاست چھوڑے زمانہ ہوا۔
کسی دوست نے حمایت کی درخواست کی؟
دوستوں کو معلوم ہے، میں سیاست چھوڑ چکا ہوں۔ کسی سیاسی پلیٹ فارم سے کسی کے لئے ایک لفظ بھی نہیں کہوں گا۔
کون سا ایسا کیریکٹر ہے جو کرنے کی خواہش ہے؟
میری خواہش تو یہ ہے کہ مجھے کام ملتا رہے۔ مجھے کام کرکے خوشی ملتی ہے۔ لیکن، ڈائریکٹرز کو فلم کے لئے ریسرچ کرنے اور سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگر وہ ہرکوئی سا کیریکڑ لے آئیں گے تو پھر مجھے دیکھنا پڑے گا کہ رول چیلنجنگ بھی ہے یا نہیں۔
کیریکٹر کے انتخاب میں کیا چیزیں دیکھتے ہیں؟
فلم کی کہانی۔ میرا کردار۔ کون پروڈیوز اور کون ڈائریکٹ کر رہا ہے۔ بہت سی باتیں ذہن میں ہوتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو ان باتوں کا پتہ بھی نہیں ہوتا۔ مجھے بھی اب تک فلم بزنس کا پوری طرح پتا نہیں لگ سکا۔
اس معاملے میں آپ نئی جنریشن کو کیسا پاتے ہیں؟
آج کے دور کے ایکٹروں کو بہت زیادہ معلومات ہیں۔ ان میں سے بہت سے خود فلمیں پروڈیوس کرتے ہیں اور ان کی اپنی کمپنیز ہیں۔ شاہ رخ، ریتھک، عامر ہوں یا سلمان۔ یہ بات قابل تعریف ہیں کہ یہ لوگ بزنس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ لیکن، میں کچھ خاص نہیں جانتا۔
کوئی ایسا کردار جس کے کرنے پر پچھتاوا ہو؟
نہیں۔ ایسا کوئی کردار نہیں۔ میں نے بہت سی فلمیں کیں اور سب پر ہی مجھے فخر ہے۔
آپ کو لفظ ’بالی وڈ ‘ پسند نہیں؟
جی۔ میرے خیال میں یہ اچھا نام نہیں۔
لیکن یہ تو خاصا مقبول ہے؟
مقبولیت کو بھول جائیں۔ یہ لفظ تو اب ڈکشنری میں بھی ہے۔ لیکن، اس کے باوجود، مجھے یہ پسند نہیں۔
آپ کے اور آپ کے خاندان کے بارے میں جو گوسپ چھپتی ہیں آپ اس سے پریشان ہوتے ہیں؟
ہم جس بزنس میں ہیں اس میں پبلک سے جڑنا پڑتا ہے اور اسی لئے لوگ ہمارے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ ہم کیا کھاتے ہیں، کیا پیتے ہیں، کیسے رہتے ہیں، کیا پہنتے ہیں۔اسی لئے ایسی خبریں چھپتی ہیں۔
آپ اس عمر میں بھی اتنے ایکٹو کیسے ہیں؟
میرے خیال میں جب تک میرا جسم اور طاقت ساتھ دے گی، مجھے کام کرتے رہنا چاہئے۔
آپ ابھیشیک اور ایشوریہ کو کام کے حوالے سے کوئی نصیحت کرنا چاہیں گے؟
بالکل نہیں۔۔ وہ خود سمجھدار ہیں۔