بھارت کی سپریم کورٹ نے شہریت ترمیمی ایکٹ پر حکومت سے چار ہفتوں میں جواب طلب کر لیا جب کہ شہریت کے نئے قانون کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے لیے پانچ رکنی بینچ بھی تشکیل دے دیا ہے۔
بھارت کے چیف جسٹس شراد اروند بوبدے کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے بدھ کو شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف دائر 140 درخواستوں پر سماعت کی۔
درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ نیا شہریت قانون غیر قانونی اور ملک کے سیکیولر تشخص کے خلاف ہے۔ نئے قانون سے شہریوں کے مساوی حقوق متاثر اور مذہبی تقسیم ہوتی ہے۔
بعض درخواست گزاروں نے استدعا کی کہ دس جنوری سے نافذ العمل شہریت ترمیمی قانون کو منجمد کیا جائے جب کہ بعض نے اسے کالعدم قرار دینے کی بھی درخواست کی۔
سماعت کے دوران عدالت نے قرار دیا کہ حکومت کو سنے بغیر شہریت قانون پر حکمِ امتناع جاری نہیں کیا جاسکتا۔
اعلیٰ عدالت نے مرکز کو نوٹس جاری کرتے ہوئے چار ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔ اس سے قبل عدالت نے شہریت قانون کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں پر بھی مرکز سے جواب طلب کیا تھا۔
حزب اختلاف کی جماعت کانگریس کے وکیل کپل سبل نے دورانِ سماعت مؤقف اختیار کیا کہ ہم حکم امتناع کا نہیں کہہ رہے۔ تاہم نیشنل پاپولیشن رجسٹرڈ (این پی آر) کے عمل کو کچھ عرصے کے لیے روکا جائے۔
SEE ALSO: کیا بھارت کا سیکولر تشخص برقرار رہ پائے گا؟مرکز کی طرف سے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ حکومت نے 143 درخواستوں گزاروں میں سے 60 کو شہریت ترمیمی ایکٹ کی کاپیز فراہم کر دی ہیں۔
عدالت نے حکومت نے چار ہفتوں میں شہریت ترمیمی ایکٹ پر جواب مانگ لیا اور حکم دیا کہ ہائی کورٹ شہریت ترمیمی ایکٹ پر کوئی درخواست قبول نہیں کر سکتی۔
یاد رہے بھارتی حکومت نے گزشتہ برس کے آخر میں ہمسایہ ملک پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں 'ستائے گئے' ان شہریوں کو بھارتی شہریت دینے کا قانون منظور کیا تھا جو مسلمان نہیں ہیں۔
اس قانون کے خلاف بھارت کے مختلف شہروں میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ شہریت ترمیمی ایکٹ مسلمانوں کے خلاف ہے جس سے ملک کے بنیادی اصول سیکیولرازم کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اسد علوی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ قانون آئین کے منافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے خلاف پورے ملک میں احتجاج ہو رہا ہے اور سپریم کورٹ میں 140 سے زائد پٹیشنز دائر کی گئی ہیں۔
اسد علوی کے بقول لگتا ہے کہ ملک گیر مظاہروں کے بعد عدلیہ متحرک ہوئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئینی بینچ ہی حکم امتناع جاری کر سکتا ہے۔ عدالتی فیصلے سے عندیہ ملتا ہے کہ آئینی بینچ کی تشکیل کے بعد آنے والے دنوں میں حکم امتناع مل سکتا ہے۔
آئینی ماہر پروفیسر فیضان مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ بہتر ہوتا کہ ملک گیر مظاہروں کے پیش نظر اٹارنی جنرل خود عدالت سے کہتے کہ حکم امتناع جاری کر دیں کیوں کہ پورے ملک میں مظاہرے ہو رہے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت نے حکم امتناع کی مخالف کی اور عدالت نے بھی اسٹے آرڈر رینا مناسب نہیں سمجھا۔