بھارت کی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے فریقین کو تین روز میں عدالت کی رہنمائی کے لیے تحریری سفارشات جمع کروانے کی ہدایت بھی کی ہے۔
چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی قیادت میں پانچ رکنی آئینی بینچ ثالثی کمیٹی کی ناکامی کے بعد گزشتہ ماہ سے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کر رہا تھا۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے اعلان کیا تھا کہ 18 نومبر کو چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے قبل ہر صورت اس کیس کا فیصلہ سنا دیا جائے گا۔
مذکورہ بینچ میں چیف جسٹس کے علاوہ جسٹس ایس اے بوبڈے، ڈی وائی چندر چوڑ، اشوک بھوشن اور ایس عبد النذیر شامل ہیں۔
پیر کے روز عدالت نے 38 ویں سماعت کا آغاز کیا تھا جو منگل اور بدھ کو بھی جاری رہی۔ بابری مسجد کا معاملہ بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع کی بڑی وجہ بن گیا تھا۔
الہ آباد ہائی کورٹ نے 2010 میں 14 زیر سماعت درخواستوں پر اس کیس کا فیصلہ سنایا تھا، جس کے تحت ایودھیا میں 2.77 ایکڑ اراضی سنی وقف بورڈ، نرموہی اکھاڑہ اور رام للا میں برابر تقسیم کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم، اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا تھا۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے 6 اگست کو تنازع کے حل کے لیے قائم ثالثی کمیٹی کی رپورٹ کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے مقدمے کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
بابری مسجد تنازع ہے کیا؟
سولہویں صدی میں تعمیر کی جانے والی بابری مسجد کے بارے میں ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ وہاں ان کے مذہبی رہنما رام جی پیدا ہوئے تھے۔ ہندوؤں کا مؤقف ہے کہ پہلے وہاں مندر تھا جسے مسلمان حکمران ظہیر الدین بابر کے سپہ سالار میر باقی نے منہدم کر کے وہاں مسجد تعمیر کی تھی۔
مسلمان اس دعوے کو بے بنیاد قرار دیتے آئے ہیں۔
یاد رہے کہ چھ دسمبر 1992 کو وشو ہندو پریشد کی اپیل پر بھارت کے شہر ایودھیا میں واقع مسجد کے نزدیک ہندوؤں کا ایک بڑا اجتماع ہوا تھا جس نے بابری مسجد منہدم کر دی تھی۔ اس کے بعد وہاں ایک عارضی مندر بنا دیا گیا تھا جس میں آج تک پوجا ہو رہی ہے۔
ثالثی کمیٹی کا قیام
بھارت کی سپریم کورٹ نے تنازع کے حل کے لیے رواں سال مارچ میں فریقین پر مشتمل ثالثی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔
ثالثی کمیٹی میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس ایف ایم آئی کلیف اللہ کے علاوہ ہندو مذہبی رہنما شری روی شنکر اور ایک سینئر وکیل سری رام پانچو کو بھی شامل کیا گیا تھا۔
ثالثی کمیٹی نے گزشتہ ماہ اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی۔ تاہم، چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے ریمارکس دیے تھے کہ ثالثی کمیٹی کی رپورٹ نے تنازع کا کوئی حل پیش نہیں کیا۔ ثالثی کمیٹی کے اراکین نے بھی قابل عمل حل پیش کرنے میں ناکامی کا اعتراف کیا تھا۔