بھارت کی سپریم کورٹ نے ریاست کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کیے جانے کے حکومتی فیصلے پر اختلافی فیصلہ سنایا ہے۔ دو رکنی بینچ کے ایک جج نے پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے مسلم طالبات کی درخواستیں خارج کردیں جب کہ دوسرے جج نے حکومتی فیصلے کو رد کیاہے اور طالبات کی تعلیم کو اہمیت دی ہے۔
سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ کےرکن جسٹس ہیمنت گپتا نے جمعرات کو اپنے فیصلے میں کہا کہ اس معاملے میں بینچ میں اختلاف رائے ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے سے متفق ہیں۔ انہوں نے اس فیصلے کو چیلنج کرنے والی درخواستیں خارج کر دیں۔
البتہ جسٹس سدھا نشو دھولیہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حجاب پہننا مسلم طالبات کی پسند کا معاملہ ہے۔یہ نہ اس سے زیادہ ہے نہ اس سے کم۔ لہٰذا اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔انہوں نے کرناٹک حکومت کی جانب سے حجاب پر پابندی کے سلسلے میں جاری نوٹی فکیشن کو مسترد کرتے ہوئے طالبات کی تعلیم کے متاثر ہونے پر اپنی تشویش ظاہر کی۔
واضح رہے کہ کرناٹک حکومت نے پری یونیورسٹی کالجز میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی تھی، جسے مسلم طالبات کی جانب سے کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔جس کے بعد ہائی کورٹ کے فیصلے کو طالبات نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔
جسٹس سدھا نشو دھولیہ نے کہا کہ''میرے ذہن میں سب سے اوپر طالبات کی تعلیم کا معاملہ ہے۔ حکومت کی جانب سے عائد کی جانے والی پابندی تعلیم اور بہتر زندگی کی راہ میں حائل ہو رہی ہے۔ لہٰذا میں بہت احترام کے ساتھ اپنے فاضل دوست سے اختلاف کرتا ہوں۔''
بینچ کے رکن جسٹس ہیمنت گپتا نے درخواستیں خارج کرنے کے ساتھ مناسب ہدایت دینے کی غرض سے اس معاملے کو چیف جسٹس یو یو للت کے سپرد کر دیا۔ ان کے بقول اب اس معاملے پر بڑا بینچ سماعت کرے گا۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ اس معاملے کے لیےآئینی بینچ تشکیل دیا جائے۔
SEE ALSO: بھارت: مسلمانوں پر 'تشدد' اور 'نفرت انگیزی' کے خلاف ہندو مذہبی تنظیموں کا اظہارِ مذمتقبل ازیں دو رکنی بینچ نے دس روز کی سماعت کے بعد 22 ستمبر کو اپنا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔سماعت کے دوران مسلمانوں کی جانب سے کم از کم 21 وکلا نے بحث کی جن میں راجیو دھون، کپل سبل، سلمان خورشید، دشینت دوے، سنجے ہیگڑے اور دیو دت کامت جیسے سینئر وکلا بھی شامل تھے۔
مسلم طالبات کی درخواستوں میں پابندی کی مخالفت کرتے ہوئے اسے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے اس فیصلے کی مخالفت کی کہ حجاب اسلام کا لازمی جز نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کو مذہبی امور میں مداخلت کرنے کا حق نہیں ہے۔ اسے قرآن کی تشریح کا بھی حق نہیں ہے اور یہ معاملہ عدالت کے دائرہ کار سے باہر ہے۔
عدالتی سماعتوں کے دوران یہ مؤقف بھی اختیار کیا گیا کہ حکومت کا فیصلہ من مانی ہے۔حکومت نے حجاب پر تو پابندی عائد کردی لیکن دیگر مذاہب کی مذہبی شناختوں جیسے کہ گھونگھٹ، پلو، چوڑی، بندی، سکھوں کی پگڑی اور کڑے وغیرہ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی۔
دوسری جانب ریاستی حکومت کی جانب سے سولیسیٹر جنرل تشار مہتا، ایڈیشنل سولیسیٹر جنرل کے ایم نٹراج اور کرناٹک کے ایڈووکیٹ جنرل پربھولنگا کے نواڈگی نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے حق میں بحث کی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ حجاب کا تنازع مسلمانوں کی ایک تنظیم ’پاپولر فرنٹ آف انڈیا‘ (پی ایف آئی) نے پیدا کیا تھا۔ ان کے مطابق کالجز میں یونیفارم کے نفاذ سے بنیادی حق یا کسی بھی قانونی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس بحث کے دوران یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ کیا کسی کالج انتظامیہ کی جانب سے یکسانیت کے لیے حجاب پر پابندی عائد کرنا دستور کی دفعہ 25 کی خلاف ورزی ہے؟
واضح رہے کہ بھارت کی وزارتِ داخلہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر پانچ سال کی پابندی عائد کرچکی ہے۔
عدالت میں حکومتی مؤقف پیش کرتے ہوئے تشار مہتا کا کہنا تھا کہ ریاستی حکومت نے کسی مذہبی معاملے کو نہیں چھیڑا ہے بلکہ نوٹی فکیشن کے ذریعے کالجز میں یکسانیت، اتحاد، مساوات اور نظم و ضبط کو یقینی بنانے کی کوشش کی ہے۔
رواں سال جنوری میں کرناٹک کے پری یونیورسٹی کالجز میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر تنازع پیدا ہوا تھا۔ مسلم طالبات کالجز میں حجاب پہن کر تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں لیکن کرناٹک حکومت نے پانچ فروری کو ایک نوٹی فکیشن جاری کرکے حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی تھی۔
مسلم طالبات کے حجاب پہننے کی مخالفت شدت پسند ہندو تنظیموں نے کی تھی۔ ہندو طلبہ نے حجاب کی مخالفت کرتے ہوئے گلے میں زعفرانی دوشالے ڈال کر مظاہرہ کیا تھا۔
قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
قانونی ماہرین بھی اس معاملے میں الگ الگ رائے رکھتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل زیڈ کے فیضان کہتے ہیں حجاب پر پابندی کا کیس اہم معاملہ ہے جس پر پہلے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو اس کیس کی سماعت کرنا چاہیے تھی۔ تاہم عدالتی فیصلے کے بعد غالب امکان ہے کہ اب کیس کی سماعت پانچ رکنی بینچ کرے گا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھات کے آئین میں تمام شہریوں کو بنیادی حقوق دیے گئے ہیں۔ لیکن دستور کی دفعہ 29 اور 30 صرف اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہے جو انہیں اپنی زبان اور تہذیب و ثقافت کی حفاظت کا حق دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حجاب مسلمانوں کی ثقافت کا حصہ ہے اس لیے اس پر بحث نہیں ہو سکتی جب کہ آئین کی دفعہ 29 کے تحت مسلمانوں کو اس کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔
سپریم کورٹ کے ایک دوسرے سینئر وکیل اجے کمار کرناٹک حکومت کے فیصلے کی حمایت کرتے ہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ کسی خاص مذہب کے خلاف نہیں بلکہ کالجز میں یکسانیت لانے کے لیے ہے۔ لہٰذا تمام طلبہ کو یونیفارم کی پابندی کرنی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر لارجر بینچ میں سماعت کے دوران مسلمانوں کی جانب سے پیش ہونے والے وکلا نے مذہب کی بنیاد پر بحث کی تو وہ مقدمہ ہار جائیں گے، انہیں اسے بنیادی حقوق کے تحفظ کے نام پر لڑنا ہوگا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اجے کمار کہتے ہیں اس قسم کی بحث میں پڑ کر کسی بھی طبقے کو تعلیم کے حق سے محروم کرنا غلطی ہو گا۔انہوں نے کہا کہ جسٹس دھولیہ کے کہنے کا بھی یہی مطلب ہے۔ انھوں نے اپنے فیصلے میں طالبات کی تعلیم پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ حجاب کی وجہ سے کسی کو تعلیم سے محروم نہیں کیا جانا چاہیے۔ گویا اس معاملے کو قانونی نقطہ نظر سے نہیں بلکہ سماجی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے۔
ان کے بقول جسٹس دھولیہ نے کرناٹک ہائی کورٹ کی جانب سے اس بات کا جائزہ لینے کی مخالفت کی کہ حجاب اسلام کا حصہ ہے یا نہیں۔ ان کے خیال میں اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔
زیڈ کے فیضان اس معاملے کو سیاسی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ معاملہ قانونی کم سیاسی زیادہ ہے۔ مسلمانوں کے عدالت میں جانے کی مخالفت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انہیں عدالت میں جانے کے بجائے اس معاملے کو سیاسی سطح پر حل کرنا چاہیے تھا۔
اجے کمار بھی تقریباً یہی بات کہہ رہے ہیں۔ ان کے مطابق ایسے قانونی تنازعات سماجی مساوات کے لیے نقصان دہ ہیں۔ سب کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے اس پر حملہ نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرناٹک حکومت کا فیصلہ صرف سرکاری کالجز کے لیے ہے پرائیوٹ کے لیے نہیں۔ جب پرائیویٹ کالجز کے ضابطوں کو تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر سرکاری کالجز کے ضابطوں کو کیوں نہیں مانا جاتا۔