بھارت میں متنازعہ شہریت ترمیمی بل پارلیمنٹ کے ایوان بالا، راجیہ سبھا سے بھی منظور ہو گیا ہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اب جلد ہی قانون کی شکل اختیار کر لے گا۔ اس بل کی حمایت میں 125 اور مخالفت میں 105 ووٹ ڈالے گئے۔
بھارتی ایوان زیریں لوک سبھا نے یہ بل پیر کے روز منظور کر لیا تھا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نکی جانب سے پیش کئے گئے بل پر 8 گھنٹے تک تند و تیز بحث ہوئی تھی۔
اس بل کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مبینہ طور پر مذہب کی بنیاد پر ستائے جانے کے بعد بھارت آنے والے غیر مسلموں کو شہریت دی جائے گی۔ اس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
امیت شاہ کی دلیل ہے کہ ان ملکوں کا مذہب اسلام ہے۔ وہاں مسلمانوں پر مذہب کی بنیاد پر جبر نہیں ہو سکتا اس لیے ان کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔
بل پیش کرتے ہوئے امیت شاہ نے کہا کہ ’’مسلمانوں کو ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہ یہاں کے شہری تھے، ہیں اور رہیں گے۔ ان کی شہریت کوئی نہیں چھینے گا‘‘۔
لیکن، انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے مسلمانوں کو شہریت نہیں دی جائے گی۔
بھارت کی اپوزیشن جماعتیں اس بل کو مسلمانوں کے خلاف اور بھارتی آئین کے خلاف قرار دے رہی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ حکومت بھارت کو مذہب کے نام پر تقسیم کر رہی ہے۔
ایوان میں بحث کا آغاز کرتے ہوئے کانگریس کے رکن آنند شرما نے کہا کہ اس سے آئین کا بنیادی ڈھانچہ پامال ہوتا ہے۔
راہو ل گاندھی نے ٹویٹ کرکے کہا کہ نریندر مودی اور امیت شاہ کی حکومت اس بل کے ذریعے بھارت کی نسلی تطہیر کرنا چاہتی ہے۔
اپوزیشن رکن پی چدمبرم نے کہا کہ حکومت ہندوتوا کا ایجنڈا آگے بڑھا رہی ہے۔
کانگریس پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاستدان غلام نبی آزاد نے حکومت پر مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا۔ ترنمول کانگریس کے ڈیریک اے برائن نے کہا کہ یہ بل نازی جرمنی کے قوانین جیسا ہے۔
حکومت کی جانب سے بل کی پر زور حمایت کی گئی اور کہا گیا کہ مذکورہ ملکوں کی مذہبی اقلیتوں کو باعزت زندگی جینے کے مواقع فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن اور سابق آئی اے ایس افسر ہرش مندر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بل ملک کے آئین کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کے بعد این آر سی آئے گا اور جن ہندووں کے پاس کاغذات نہیں ہوں گے انھیں شہریت دے دی جائے گی اور جن مسلمانوں کے پاس نہیں ہوں گے انھیں حراستی مراکز میں ڈال دیا جائے گا۔ این آر سی آسام میں مقیم تمام 'حقیقی' ہندوستانیوں کی فہرست ہے ، جن کا اندراج سب سے پہلے 1951 میں کیا گیا تھا۔
ایک مسلم سیاسی کارکن اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) کے نیشنل سکریٹری ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے کہا کہ یہ بل ہندی، ہندو، ہندوستان کے آر ایس ایس کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لایا گیا ہے۔
بل کے خلاف بھارت کی شمال مشرقی ریاستوں میں پر تشدد مظاہرے ہو رہے ہیں۔ آسام اور تری پورہ میں حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔ بھارتی ریاست آسام کے سب سے بڑے شہر گوہاٹی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور ریاست کے دس اضلاع میں انٹرنیٹ اور موبائل پر پابندی لگا دی گئی ہے۔گوہاٹی میں سیکریٹیریٹ کے سامنے پرتشدد مظاہرہ ہوا۔ پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور اشک آور گیس کے گولے داغے۔
پولیس کی کارروائی میں متعدد طلبا زخمی ہو ئے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ سینکڑوں طلبا کو حراست میں لیا گیا ہے۔
بھارتی ریاستوں آسام اور تری پورہ میں فوج تعینات کر دی گئی ہے۔ منگل کے روز نئی دہلی میں بھی زبردست مظاہرہ ہوا تھا۔ بھارت کے دیگر حصوں سے بھی احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات ہیں۔