بھارت میں بھی امریکی ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا

امریکی ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قدر بھی مسلسل کم ہو رہی ہے اور منگل کو ایک امریکی ڈالر 80 بھارتی روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

بھارتی حکومت نے پیر کو پارلیمنٹ میں اعتراف کیا تھا کہ 31 دسمبر 2014 کے بعد سے بھارتی روپے کی قد رمیں 25 فی صد گراوٹ آئی ہے۔

وزیر مالیات نرملا سیتا رمن نے لوک سبھا میں ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ روس یوکرین جنگ، خام تیل کی قیمتوں میں اضافے اور سخت عالمی مالیاتی صورت حال جیسے بین الاقوامی اسباب کی وجہ سے امریکی ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپیہ مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔

تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانوی پاؤنڈ، جاپانی ین اور یورو کی قدر میں بھارتی روپے سے زیادہ گراوٹ آئی ہے۔ ان کے بقول 2022 میں مذکورہ کرنسیوں کے مقابلے میں بھارتی روپیہ مضبوط ہوا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ریزرو بینک آف انڈیا کے مطابق 2014 میں ایک ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قیمت 63 اعشاریہ 33 پیسے تھی جو کہ 11 جولائی 2022 کو 79 اعشاریہ 41 پیسے ہو گئی۔

ریزرو بینک آف انڈیا کے ڈپٹی گورنر مائکل پاترا نے کچھ روز قبل کہا تھا کہ سینٹرل بینک روپے کے استحکام کے لیے اقدامات کرے گا اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کو تیزی سے گرنے سے روکے گا۔

بھارت میں حالیہ دنوں میں مہنگائی میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق بھارتی روپے کی قدر میں گراوٹ کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں بھارتی کرنسی کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی ڈیمانڈ زیادہ ہے۔

اقتصادی امور کے ماہر وویک شکلا کے مطابق اس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ بھارتی شہریوں کی جانب سے برآمدات کے مقابلے میں غیر ملکی مصنوعات اور سروسز کی درآمد زیادہ کی جا رہی ہے۔

ان کے بقول اسی کو کرنٹ اکاونٹ ڈیفیسٹ (سی اے ڈی) کہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں غیر ملکی کرنسی بالخصوص ڈالر ملک میں آنے کے بجائے ملک سے باہر زیادہ جاتا ہے۔

ان کے بقول اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بھارتی معیشت میں غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو رہی ہے۔رواں سال کے آغاز سے بہت سے سرمایہ کار بھارتی مارکیٹ سے اپنا پیسہ نکال رہے ہیں۔ ایسا اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ امریکہ میں شرح سود بھارت کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔

ان کے مطابق امریکی سینٹرل بینک امریکہ میں تاریخی افراط زر میں اضافے کو روکنے کے لیے شرح سود میں جارحانہ انداز میں اضافہ کر رہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق غیر ملکی سرمایہ کاروں نے حالیہ دنوں میں بھارتی مارکیٹ سے 1650 کروڑ روپے کے حصص فروخت کیے ہیں۔ یہ بات بھارتی کرنسی کے لیے تشویش ناک ہے۔

وویک شکلا کے مطابق روپے کی قدر میں گراوٹ کی وجہ سے غیر ملکی اشیا کی خرید یا درآمد کے لیے زیادہ پیسے دینے پڑیں گے۔ غیر ملکی سفر اور دوسرے ممالک میں تعلیم کا حصول بھی مہنگا ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ اندرون ملک مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔ اشیا کی قیمتیں بڑھیں گی۔

لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ کرنسی کی کمزوری کی وجہ سے بھارتی مصنوعات غیر ملکی مارکیٹ میں مقابلے میں آجائیں گی۔ چونکہ بھارتی مصنوعات سستی ہو جائیں گی لہٰذا ان کی فروخت بڑھے گی۔

روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ کی وجہ سے نریندر مودی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اپوزیشن رہنما مودی حکومت کو ا س بات کی یاد دہانی کرا رہے ہیں کہ 2014 میں اقتدار میں آنے سے قبل بی جے پی کس طرح اس وقت کانگریس حکومت کو روپے میں گراوٹ کی وجہ سے تنقید کا ہدف بنا رہی تھی۔

حزب اختلاف کے ارکان پارلیمنٹ نے منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بھارتی کرنسی میں گراوٹ اور افراط زر میں تیزی سے اضافے کے خلاف احتجاج کیا۔ کانگریس رہنما راہل گاندھی سمیت متعدد اپوزیشن ارکان نے رسوئی گیس کی قیمت میں اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کیا اور مہنگائی میں اضافے کے لیے حکومت کی مذمت کی۔

ادھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں بھی ٹیکس میں اضافے اور مہنگائی کے خلاف ہنگامہ ہوا۔ اپوزیشن ارکان نے حکومت کے خلاف نعرے بازی کی جس کی وجہ سے دونوں ایوانوں کی کارروائی پورے دن کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ پیر کو بھی اپوزیشن کے ہنگامے کی وجہ سے کارروائی نہیں چل سکی تھی۔

احتجاج کے بعد سینئر کانگریس رہنما اور رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے کہا کہ نریندر مودی نے 2014 میں روپے کی قدر میں گراوٹ کو انتخابی ایشو بنایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کی حکومت کمزور ہے جس کی وجہ سے روپیہ گر رہا ہے۔ وہ روپے کو مضبوط بنانے کے لیے آئے تھے۔ لیکن انہوں نے روپے کو مزید کمزور کر دیا۔

ان کے بقول وہ جس وقت اقتدار میں آئے تھے ڈالر کے مقابلے میں بھارتی کرنسی کی قیمت 50 روپے کے آس پاس تھی جو کہ آج 80روپے پر پہنچ گئی ہے۔ باہر سے آنے والی ہر شے مہنگی ہو گئی۔ تیل کی قیمتیں بڑھا دی گئی ہیں اور اب مختلف اشیا پر جی ایس ٹی عائد کر دینے سے عام آدمی پر اضافی بوجھ پڑ گیا ہے۔

قبل ازیں راہل گاندھی نے نریندر مودی کی تقریر کا ایک کلپ شیئر کیا جس میں انہوں نے روپے میں گراوٹ کی وجہ سے 2014 میں کانگریس حکومت کو نشانہ بنایا تھا۔

راہل گاندھی نے کہا کہ مودی جی یہ آپ ہی نے کہا تھا کہ ملک ناامیدی میں غرق ہو رہا ہے۔ اس وقت آپ جتنا شور مچاتے تھے آج روپے میں تیزی سے گراوٹ دیکھ کر اتنے ہی چپ ہیں۔


کانگریس نے بی جے پی کے اس نعرے کے مقابلے میں کہ ’اب کی بار مودی سرکار‘ ہیش ٹیگ چلایا ’اب کی بار 80 کے پار‘۔ اس کے مطابق سات مہینوں سے روپیہ گر رہا ہے اور حکومت سو رہی ہے۔ دیگر اپوزیشن جماعتیں بھی روپے کی قدر میں گراوٹ پر مودی حکومت پر شدید تنقید کر رہی ہیں۔

دریں اثنا حکومت نے مزید ریونیو کے حصول کے لیے مختلف اشیا پر گڈز اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) میں اضافہ کر دیا ہے۔ ماہرین کاخیال ہے کہ اس کی وجہ سے مہنگائی میں اور اضافہ ہوگا اور عوام کی جیب پر مزید بوجھ پڑے گا۔

حکومت نے پچیس کلو تک کی ڈبہ بند غذائی اشیا جیسے کہ اناج، دال، آٹا، دودھ، دہی، مچھلی، شہد، سویا بین، مٹر، گیہوں اور مرمرے وغیرہ پر پانچ فی صد ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ پہلے ان پر کوئی ٹیکس نہیں تھا۔

ہوٹل کے کمروں اور اسپتالوں میں بلا نگہداشت والے یعنی غیر آئی سی یو کمروں پر بارہ فی صد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ بینک چیک پر 18 فی صد، کٹ اینڈ پالشڈ ڈائمنڈ پر ڈیڑھ فی صد، چمڑے کی اشیا پر 12 فی صد، پرنٹنگ رائٹنگ اور ڈرائینگ انک پر 18 فی صد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔

ایل ای ڈی بلب، چاقو، بلیڈ، پینسل شارپنر، چمچوں، فورک وغیرہ پر 12 فی صد ٹیکس کو 18 فی صد کر دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جی ایس ٹی پر نظر ثانی اور ٹیکس میں اضافے کے بعد مذکورہ اشیا کی قیمتوں میں چار سے چھ فی صد کا اضافہ ہو جائے گا۔