بھارت کی پولیس نے دہلی فسادات کے الزامات میں سیکڑوں ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے جن میں جامعہ ملیہ کے وہ طلبہ بھی شامل ہیں جو متنازع شہریت ترمیمی بل کے خلاف تحریک میں پیش پیش تھے۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق دہلی فسادات کے سلسلے میں اب تک 802 ملزمان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
کرائم برانچ نے 182 جب کہ شمال مشرقی دہلی کی پولیس نے 620 ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔
دہلی فسادات کے الزام میں پولیس نے جن ملزمان کو گرفتار کیا ہے اُن پر مقدمات قائم کرتے ہوئے بغاوت، قتل، فسادات اور مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے کے الزامات کی دفعات شامل کی ہیں۔
نئی دہلی سے وائس آف امریکہ کے نمائندے سہیل انجم کے مطابق پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے یو این) کے بعض اُن طلبہ کو بھی گرفتار کیا ہے جو شہریت ترمیمی بل کے خلاف تحریک میں شامل تھے۔
طلبہ کے خلاف دہشت گردی کے قانون (یو اے پی اے) کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے اُن پر تشدد کے لیے اُکسانے کا الزام بھی ہے۔
پولیس نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم میران حیدر اور ایک سیاسی جماعت راشٹریہ جنتا دل کی طلبہ تنظیم کی رہنما صفورہ زرگر کو گرفتار کیا ہے۔
جے این یو کے ایک سابق طالب علم عمر خالد پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
جے این یو کے ایک طالب علم امرت راج نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ ابھی صرف عمر خالد کے خلاف دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ لیکن طلبہ کو خدشہ ہے کہ جو شہریت قانون کے خلاف احتجاج میں شامل تھے، ان کے خلاف بھی کارروائی ہو سکتی ہے۔
SEE ALSO: مسلمانوں کو خطرہ قرار دینے والے ڈاکٹر سبرامنین سوامی کون ہیں؟بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق پولیس کی جانب سے گرفتاریاں وزیرِ داخلہ امیت شاہ کے دباؤ پر کی جا رہی ہیں۔
کرونا وائرس کے بحران کے دوران دو ہفتے قبل وزارتِ داخلہ کے حکام نے دہلی پولیس کو ہدایت کی تھی کہ وہ فسادات کے سلسلے میں اپنی کارروائی نہ روکے۔
یاد رہے کہ رواں برس فروری کے آخری عشرے میں دہلی میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے نتیجے میں 53 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی جب کہ گرفتار شدگان میں بھی اکثریت مسلمانوں ہی کی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پولیس کی کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا رہی ہے اور پسِ پردہ فرقہ وارانہ سیاست کام کر رہی ہے۔ جن لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے وہ تمام کے تمام مسلمان ہیں۔
لاک ڈاؤن کی وجہ سے عدالتوں کا کام بھی ٹھپ ہے جس کی وجہ سے گرفتار ملزمان قانونی امداد سے محروم ہیں۔
دہلی پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی کے ارکان نے گرفتاریوں کی مذمت کی ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ گرفتاریاں شہریوں کی آزادی کو نشانہ بنانے اور نوجوان جمہوری آوازوں کو کچلنے کے مترادف ہے۔
دہلی اقلیتی کمیشن نے دہلی پولیس کمشنر ایس این شری واستو کو ایک خط ارسال کیا ہے جس میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ پولیس شمال مشرقی دہلی میں روزانہ درجنوں مسلمانوں کو گرفتار کر رہی ہے۔
SEE ALSO: کرونا وائرس: بھارت میں حکومتی و عوامی ترجیحات تبدیلکمیشن کے چیئرمین ظفر الاسلام خان کے مطابق یہ گرفتاریاں ناقابل قبول ہیں۔ جنہیں گرفتار کیا جا رہا ہے اُن کی عمریں 20 سے 30 سال کے درمیان ہیں۔
انسانی حقوق کے کارکنوں، ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی ارکان نے وزیرِ داخلہ امیت شاہ کے نام ایک خط میں ان گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہوئے اسے شہریوں کے حقوق پر حملہ اور طاقت کا غلط استعمال قرار دیا ہے۔
وزیرِ داخلہ کو ارسال کردہ اس خط پر ملک کی 25 سرکردہ شخصیات کے دستخط ہیں۔
شہریت ترمیمی بل کے مخالف اتحاد (الائنس اگینسٹ سی اے اے، این آر سی، این پی آر) کے کنوینئر مجتبیٰ فاروق نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد ہم نے اپنی تحریک روک کر ریاست سے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا تھا۔
اُن کے بقول اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سب متحد ہو کر کرونا کے خلاف لڑیں۔ لیکن پولیس لاک ڈاؤن کے دوران مسلمانوں کی گرفتاریاں کر رہی ہے جو کہ زیادتی اور ظلم ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس ایسے لڑکوں کو بھی گرفتار کر رہی ہے جو فساد زدہ علاقوں سے تعلق نہیں رکھتے۔ گرفتار افراد کا تعلق ان علاقوں سے بھی ہے جہاں شہریت ترمیمی بل کے خلاف تحریکیں چلی تھیں۔
مجتبیٰ فاروق نے کہا کہ جنہیں گرفتار کیا گیا ہے ان میں سے کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔
ان کے بقول، "اس وقت جیلوں میں بھیڑ کم کرنے کے لیے بہت سے قیدیوں کو پیرول پر رہا کیا جا رہا ہے لیکن دہلی پولیس لوگوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال رہی ہے جو کہ غیر انسانی اور تفریق پر مبنی ہے۔ اس کا سلسلے کو بند ہونا چاہیے۔"
مجتبیٰ فاروق کا مزید کہنا تھا کہ شہریت ترمیمی بل کے خلاف تحریک چلانے والوں کی گرفتاری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پولیس انتقامی کارروائی کر رہی ہے۔