بھارتی فوج نے نئی دہلی کے زیرِانتظام کشمیر میں تعینات اپنے ایک افسر میجر لیتول گگوئی کے برتاؤ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
تفصیل کے مطابق، میجر گگوئی نے گزشتہ بُدھ کو شورش زدہ ریاست کے گرمائی صدر مقام سرینگر کے ایک ہوٹل کے عملے کے ساتھ اُس وقت ہاتھاپائی کی تھی جب انہیں ایک مقامی طالبہ کے ساتھ وہاں ٹھہرنے کی اجازت سے انکار کیا گیا تھا۔
میجر گگوئی وہی بھارتی فوجی افسر ہے جس نے اپریل 2016 میں بھارتی پارلیمان کے ایک ضمنی انتخاب کے دوران پیش آنے والے سنگباری کے واقعات کے بیچ وادی کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام میں ایک مقامی شال جولاہے، فاروق احمد ڈار کو مبینہ طور پر اپنی گاڑی کے ساتھ باندھ کر اُسے کئی گاؤں کی سڑکوں پر گھماتے ہوئے پتھراؤ کرنے والوں سے بچنے کے لئے ڈھال بنایا تھا۔
اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہوگئی تھی، جس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل اور انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے اداروں اور کئی مقامی اور غیر مقامی سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی گروپوں نے فوجی افسر کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
جمعے کو سرینگر میں بھارتی فوج کے ترجمان، کرنل راجیش کالیہ نے بتایا کہ میجر گگوئی جسے پولیس نے بدھ کو پیش آنے والے واقعے کے بعد عارضی طور پر حراست میں لیا تھا، اُن کے خلاف کورٹ آف انکوائری بٹھادی گئی ہے اور اگر اسے فوجی قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا مرتکب پایا گیا تو اُن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
اس سے پہلے بھارت فوج کے سربراہ جنرل راوت نے جو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی حفاظتی صورتِ حال کا جائزہ لینے کے ریاست کے دورے پر ہیں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ "بھارتی فوج کے کسی افسر کو کسی جرم میں ملوث پایا جاتا ہے تو اُس کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جاتی ہے۔ اگر میجر گگوئی نے غلط کیا ہے تو میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اُنھیں بہت جلد سزا دی جائے گی اور یہ ایسی ہوگی جس سے سب کو عبرت ملے گی"۔
مقامی پولیس واقعے کی الگ سے تحقیقات کر رہی ہے، لیکن اسے مقامی سطح پر اس بات کے لئے سخت نکتہ چینی کا ہدف بننا پڑ رہا ہے کہ اس نے میجر گگوئی اور اس کے ساتھ ہوٹل پہنچنے والے ایک مقامی فوجی سمیر احمد ملہ کو ایک نابالغ طالبہ کو ہوٹل پہنچانے پر گرفتار کرنے اور ان پر باضابطہ مقدمہ چلانے کی بجائے انہیں متعلقہ فوجی یونٹ کے حوالے کردیا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس ایس پی پانی نے کہا کہ اگرچہ لڑکی نے اپنے ابتدائی بیان میں پولیس کو بتایا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے فوجی افسر کے ساتھ ہوٹل میں کچھ وقت گرازنا چاہتی تھی، پولیس اس بات کا پتا لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ بردہ فروشی، بلیک میلنگ یا جنسی استحصال کا واقعہ تو نہیں ہے اور آیا لڑکی بالغ ہے یا نابالغ۔
بتایا گیا ہے کہ میجر گگوئی نے ہوٹل میں دو افراد کے لئے کمرہ آن لائین بُک کراتے وقت اپنی اصلی شناخت چھپائی تھی اور لکھا تھا کہ وہ آسام کا رہنے والا لیتول گگوئی ہے اور کشمیر تجارت کی غرض سے آرہا ہے اور ہوٹل کا بل کریڈٹ کارڈ کے ذریعے ادا کرے گا۔
لڑکی گیارہویں جماعت کی طالبہ ہے اور اپنے والدین اور تین چھوٹے بھائیوں کے ساتھ بڈگام کے ایک گاؤں چکِ کاؤوسہ میں ٹین کی چادروں کے بنے ایک شیڈ میں رہتی ہیں۔ اُن کی والدہ نے پولیس اور نامہ نگاروں کو بتایا کہ میجر گگوئی نے اس سال مارچ سے ابتک دو بار ان کے گھر میں زبردستی گھس کر اس کی بیٹی کو مکالمے میں الجھایا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اس کے ہمراہ مقامی فوجی سمیر بھی تھا جس نے اس سے پہلے لڑکی کو ریاستی حکومت کی طرف سے نادار اور بے روز گار نوجوانوں کے لئے شروع کی گئی ایک اسکیم کے تحت ایک 'اپنی خدمت آپ گروپ' کا ممبر بنانے میں مدد کی تھی۔ یہ کنبہ انتہائی مفلسی کی زندگی گزار رہا ہے۔
اس واقعے پر نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں پھیلے ہوئے غم و غصے کے ماحول میں کئی سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں نے فوجی افسر اور مبینہ استحصال کی اس کوشش میں اس کی مدد کرنے والے مقامی شخص کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ شوشل میڈیا پر بھی اس واقعے کی چرچا ہو رہی ہے۔
اس دوران جمعے کو سرینگر کے پرانے حصے میں پولیس اور نیم فرجی دستوں نے مظاہرین پر جو بھارت سے آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے اشک آور گیس چھوڑی اور چھرے والی بندوقیں استعمال کیں۔ درجنوں افراد کے چوٹیں آئیں جن میں سے چند ایک کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ شدید طور پر زخمی ہونے والوں میں ایک دوکاندار بھی شامل ہے۔ تین صحافی اور ایک پریس فوٹو گرافر بھی حفاظتی دستوں کی کارروائی میں زخمی ہوگئے ہیں۔
یہ مظاہرے قریب واقع جامع مسجد میں نمازِ جمعہ اد کئے جانے کے فوراً بعد کئے گئے۔ کشمیر کے میرواعظ مولوی محمد عمر فاروق نے الزام لگایا ہے کہ "بھارتی فورسز نے مسجد سے نکلنے والے ہر عمر کے نمازی پر بے دریغ طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا"۔ پولیس عہدیداروں نے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرین نے پولیس اہلکاروں پر سنگباری کی تھی۔ اس واقعے کے بعد سرینگر میں ایک مرتبہ پھر تناؤ پیدا ہوگیا ہے۔
اس سے پہلے شمالی ضلع بانڈی پور کے حاجن علاقے میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک 38 سالہ شخص محمد مقبول وگے کو اس کے گھر سے اغوا کرنے کے بعد اس کا گلہ کاٹ کر قتل کیا تھا۔ عہدیداروں نے اس واقعے کے لئے عسکریت پسندوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر اس اور علاقے میں اس سے پہلے اغوا کے بعد قتل کئے جانے کے تقریباً نصف درجن واقعات کی سرعت کے ساتھ تحقیقات کرنے کے لئے ایک خصوصی پولیس ٹیم تشکیل دے دی ہے۔