بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں اسکول دوبارہ کھل گئے

سری نگر کے ایک اسکول میں بچیاں اسمبلی کے لیے اکھٹی ہوئی ہیں

نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں اسکول سرمائی تعطیلات کے سلسلے میں قریبا" تین ماہ تک بند رہنے کے بعد بُدھ کو دوبارہ کھل گئے تاہم عملی طور پر ان میں درس و تدریس کا کام قریبا" نو ماہ کے بعد ہی باظابط طور پر شروع ہوا ہے۔

8 جولائی 2016 کو معروف عسکری کمانڈر برہان مظفر وانی کو بھارتی فوج کی طرف سے ایک آپریشن کے دوران ہلاک کئے جانے کے بعد مسلم اکثریتی وادئ کشمیر اُبل پڑی تھی اور مظاہروں، ہڑتالوں اور تشدد کا سِلسلہ تقریبا" چھہ ماہ تک جاری رہا۔ 80 سے زائد شہری جن میں اکژیت نوجوانوں کی تھی حفاظتی دستوں کی فائرنگ میں مارے گئے، کئی پیلٹ گن کے استعمال میں بینائی سے محروم ہوگئے۔ نتیجتا" پوری وادئ میں کاروبارِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔ تعلیم کا شعبہ بھی بُری طرح مُتاثر ہوا اور اسکول اور دوسرے تعلیمی ادارے کئی ماہ تک بند رہے۔ جب برہان وانی مارا گیا تو اسکول پہلے ہی گرمیوں کی چھٹیوں کے سلسلے میں بند تھے۔ شورش کے دوران تیس سے زائد اسکولوں کی عمارتیں نذرِ آتش کی گیئں۔ اس کے لئے تحریکِ مزاہمت سے وابسطہ جماعتوں اور حکومت نے ایک دوسرے کو مُوردِ الزام ٹھرایا تھا۔

تاہم نامساعد حالات اور مقامی آبادی کے ایک حصے اور بعض سیاسی جماعتوں با الخصوص آزادی پسند تنظیموں کی شدید مُخالفت کے باوجود نومبر-دسمبر میں بورڑ امتحانات منعقد کرائے گئے اور ان میں پچانوے فیصد امیدواروں نے حصہ لیا۔ دسویں اور بارہویں جماعتوں کے اِن امتحانات مٰیں طلبہ اور طالبات کی بھاری اکثریت کی شمولیت کو حکومتِ بھارت نے عسکریت پسندوں اور اُن کی حامی سیاسی قیادت کو شرمندہ کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔

بھارت کے انسانی وسائل کی ترقی کے وفاقی وزیر پرکاش جوادیکر نے متنازعہ کشمیر کو نئی دہلی اور اسلام آباد کے زیرِ کنٹرول حصوں میں تقسیم کرنے والی حد بندی لائین کے پاکستانی علاقے میں ستمبر کے آخری ہفتے میں بھارتی فوج کی طرف سے کی گئی مُبینہ سرجیکل اسٹرائکس کے پس منظر میں کہا تھا کہ امیدواروں کی بھاری اکثریت کی امتحانات میں شرکت اُن کی طرف سے علحیدگی پسند جنگجوؤں اور دہشت گردوں کے خلاف سرجیکل اسٹرایک ہے۔

شورش کے نتیجے میں اسکول مسلسل کئی ماہ تک بند رہنے کے پیشِ نظر حکومت نے محکمہ تعلیم سے موسمِ سرما کے دوراں مخصوص علاقوں اور اسکولوں میں 'ونٹر سکولینگ' یا سردیوں کے دوراں درس و تدریس کا کام چلانے کے لئے کہا تھا لیکن بھاری برفباری اور کڑاکے کی سردی کے باعث یہ تجربہ کچھ کامیاب نہ رہا اور طلبہ اور طالبات نے گھروں کے اندر یا قریبی ٹیوشن مراکز پر جاکرہی اپنی تعلیم جاری رکھنے کو ترجیح دی۔

بُدھ کو رنگ برنگی وردیوں میں ملبوس اور ہشاش بشاش اور کِھلے ہوئے چہروں کے ساتھ نو عمرلڑکوں اور لڑکیوں اور ننھے منھے بچوں اور بچیوں کو برستی بارش کی پرواہ کئے بغیر اسکولوں کے طرف رواں دواں دیکھا گیا اور اسکولوں میں کئی ماہ کے بعد رونق اور معمول کی گہما گہمی لوٹتی نظر آئی۔ تاہم عہدیداروں نے اُن علاقوں میں جو اب بھی کئی کئی فٹ گہری برف سے ڈھکے ہوئے ہیں سرمائی تعطیلات بارہ مارچ تک بڑھادی ہیں۔ یہ علاقے حد بندی لائین کے قریب واقع ہیں۔ محکمہ تعلیم کے ڈائریکٹر راجیو تراجن نے بتایا کہ ایسا ان علاقوں میں برفانی تودے گرنے کے خدشے اور سڑک کے رابطے مکمل طور پر بحال نہ ہونے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔