بھارتی کشمیر میں پولیس بس پر مُشتبہ عسکریت پسندوں کا حملہ، دو ہلاک، 12 زخمی

فائل فوٹو

پیر کی شام کو مشُتبہ عسکریت پسندوں نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے گرمائی صدر مقام سری نگر کے مضافات میں واقع زیون علاقے سے گزرنے والی ایک پولیس بس پر اچانک خودکار ہتھیاروں سے حملہ کر دیا۔ اس واقعے میں ایک اسسٹنٹ سب انسپکٹر سمیت دو پولیس اہلکار ہلاک اور 12 زخمی ہوگئے۔ تاہم، غیر سرکاری اطلاعات میں زخمیوں کی تعداد 16 بتائی گئی ہے۔

ایک پولیس عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چند زخمی پولیس اہلکاروں کی حالت انتہائی تشویشناک ہے۔ زخمیوں کا علاج سری نگر کے بادامی باغ علاقے میں واقع بھارتی فوج کی پندرہویں کور کے صدر دفاتر میں قائم 92۔بیس اسپتال میں ہو رہا ہے۔

SEE ALSO: انسانی حقوق کا عالمی دن: بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مقدمات، گرفتاریاں اور نظربندیاں

پولیس ذرائع کے مطابق بس میں سوار انڈین ریزرو پولیس فورس (آئی آر پی) کے اہلکار دن کے دوران سری نگر کے حساس علاقوں میں ڈیوٹی انجام دینے کے بعد زیون کے علاقے میں واقع اپنے کیمپ کو لوٹ رہے تھے۔

تاک میں بیٹھے حملہ آوروں نے اندھا دھند فائرنگ کی

عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سری نگر شہر اور زیون کو ملانے والی سڑک پر آری پورہ کے مقام پر تاک میں بیٹھے مشُتبہ عسکریت پسندوں نے مبینہ طور پر پولیس بس پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔

اطلاعات کے مطابق، خون میں لت پت اہلکاروں کو اُن کے ساتھیوں نے فوری طور پر قریب واقع فوجی اسپتال پہنچا دیا جہاں اسسٹنٹ سب انسپکٹر غلام حسن اور سینئر گریڈ کانسٹیبل شفیق علی زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔

مسلح پولیس کمک نے جس میں شورش مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ کے کمانڈوز بھی شامل ہیں بھارتی فوج اور وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے ساتھ ملکر زیون جو سری نگر کے سٹی سنٹر سے بارہ کلو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے کے ایک وسیع رہائشی علاقے کو گھیرے میں لیکر حملہ آوروں کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے لئے آپریشن شروع کر دیا ہے۔

ایک پولیس بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پولیس بس میں سوار اہلکاروں نے جوابی فائرنگ کی، حملہ آور اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جائے وقوعہ سے بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔ پولیس بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ زخمی سپاہی خطرے سے باہر ہے۔

پلوامہ خود کُش حملے کے بعد ایک بڑا واقعہ

پیر کو پولیس بس پر کیا گیا حملہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع پلوامہ میں 14 فروری 2019ء کو سی آر پی ایف کے قافلے پر کئے گئے خود کُش حملے کے بعد پیش آنے والا اپنی نوعیت کا بڑا واقعہ ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

سرینگر: انکاؤنٹر میں مبینہ عام شہریوں کی ہلاکت پر لواحقین کا احتجاج

پلوامہ حملے کے لئے جس میں 40 سے زائد اہلکار ہلاک ہوئے تھے بھارت نے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا اور دو ہفتے بعد اس کی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے پاکستان کے خیبر پختونخوا صوبے کے علاقے بالاکوٹ میں مبینہ طور پر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اسلام آباد نے بھارتی دعوؤں کی تردید کی تھی۔

تشدد کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ

بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں حالیہ مہینوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، دوسری جانب بھارتی سیکورٹی فورسز نے بھی عسکریت مخالف کارروائیاں تیر کردی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ان واقعات میں بڑی تعداد میں ہلاکتیں واقع ہوئی ہیں۔

بھارتی وزارتِ داخلہ نے گزشتہ ہفتے نئی دہلی میں پارلیمان کو بتایا تھا کہ پانچ اگست 2019ء کے بعد جب جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کی گئی تھی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے علاقے قرار دیا گیا تھا اب یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کہلائے جانے علاقے میں تشدد مین 344 عسکریت پسند ، 94 عام شہری اور 81 سیکورٹی اہلکار ہلاک ہوچکے ہیں۔ وادی کشمیر میں جسے شورش کا گڑھ مانا جاتا ہے حالیہ ہفتوں میں مشتبہ عسکریت پسندوں کی جانب سے شہریوں کو ہلاک کرنے کے واقعات میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے جس پر بھارتی حکومت نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔

سری نگر میں مظاہرے اور پتھراؤ

پیر کو پولیس بس پر کئے گئے حملے سے چند گھنٹے پہلے حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس نے شہر کے مضافات میں واقع رنگریٹ علاقے میں ایک 'چانس انکاونٹر' کے دوران کالعدم لشکرِ طیبہ سے وابستہ ایک عسکریت پسند عادل احمد وانی کو جو جنوبی ضلع شوپیان کا رہنے والا تھا اور اس کے غیر ملکی ساتھی کو ہلاک کردیا۔ پولیس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ دونوں سیکورٹی فورسز پر کئے گئے متعدد حملوں اور دوسری دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث تھے۔

لیکن مقامی لوگوں نے واقعے کے چشم دید گواہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے الزام لگایا کہ دونوں نہتے تھے اور یہ کہ انہیں پولیس نے ایک فرضی جھڑپ میں ہلاک کردیا۔

اس واقعے کے بعد علاقے میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے اور لوگوں نے سڑکوں پر آکر پولیس کے خلاف نعرے لگائے۔ بعد میں مشتعل نوجوانوں اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اشتعال میں آئے ہوئے نوجوانوں نے مبینہ طور پر پولیس پر پتھراؤ کیا اور پولیس نے انہیں منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کے گولے داغے اور چھرے والی بندوقیں استعمال کیں۔

ایک وائرل ویڈیو میں احتجاج میں شامل ایک ادھیڑ عمر کی خاتون کو پولیس کو للکار کر یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ: "ہم ابھی مرے نہیں کہ تم ہمارے بچوں کا یوں خون بہانے لگے۔"