سری نگر میں سیکورٹی اہل کار کشمیریوں سے کس طرح پیش آتے ہیں؟

سری نگر میں ایک سیکورٹی اہل کار پہرہ دے رہا ہے، بورڈ پر فاصلہ رکھنے اور کوئی سوال نہ کرنے کی ہدایت درج ہے۔ 15 اگست 2019

"تم لال چوک کیوں گئے تھے؟" فوجی لباس میں ملبوس اہل کار کے اس استفسار پر میں حیران رہ گیا بلکہ مجھے اس سے دُکھ پہنچا۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا، ’'مجھ سے کوئی اور وہ بھی ایک بیرونی شخص یہ کیونکر پوچھے کہ میں ایک ایسے شہر میں جہاں میں پیدا ہوا اور جہاں میں نے زندگی کا بیشتر حصہ گزارا، کس لیے گیا تھا'‘۔

جس اہل کار نے مجھ سے یہ سوال پوچھا وہ بھارت کی وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے اُس دستے میں شامل تھا جو سری نگر کے پُرانے تاریخی شہر سے جو 'شہرِ خاص' بھی کہلاتا ہے، گزرنے والی ایک سڑک پر سیکورٹی فورسز کے ایک نگران مورچے سے ذرا فاصلے پر قائم ایک عارضی چیک پوائنٹ پر تعینات تھا۔

یہ رات کے ساڑھے نو بجے کا وقت تھا۔ میں پیشہ ورانہ محاذ پر دن بھر کی مصروفیت کے بعد گھر لوٹ رہا تھا۔ سی آر پی ایف کے دو اہل کاروں نے، جن میں سے ایک مسلح تھا اور دوسرے کے ہاتھ میں ایک طاقتور ٹارچ تھا، میری کار کی باریک بینی سے تلاشی لی۔

تیسرے اہل کار نے گاڑی کا نمبر ایک کاپی میں نوٹ کرنے کے بعد مجھ سے پوچھا ’'کہاں سے آ رہے ہو اور کہاں جانا ہے؟‘‘

میں نے جواب دیا، ’’میں لال چوک (سری نگر کا مرکزی مقام) گیا تھا اور گھر لوٹ رہا ہوں‘'۔

اس پر سی آر پی اہل کار گویا ہوا۔ ’'تم لال چوک کیوں گیے تھے؟'‘

میں نے اُس کے اس طفلانہ سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے اُسے اپنا شناختی کارڈ دکھایا۔ میرے پاس حکام کی طرف سے جاری کردہ وہ اجازت نامہ بھی تھا جس کے تحت میں 'دفعہ 144 کے تحت شہر میں نافذ بندشوں کے دوران نقل و حرکت کر سکتا ہوں۔ لیکن میں جس سڑک سے گزر رہا تھا اُس پر اس وقت اس طرح کی کوئی پابندی بھی عائد نہیں تھی۔

اہل کار جب میری شناخت کے بارے میں مطمئن ہوا تو اُس نے مجھے آگے جانے کی اجازت دی۔

اگلی صبح میں گھر سے سری نگر میں 'مشتاق پریس انکلیو' میں واقع اپنے دفتر جا رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ جس جگہ مجھے رات کو روکا گیا تھا، وہاں لگایا گیا ڈراپ گیٹ ہٹا لیا گیا ہے۔ تاہم، قریب واقع نگرانی مورچے کے باہر کوئی نصف درجن مسلح سی آر پی اہل کار چاک و چوبند کھڑے نظر آئے۔ مورچے کے اندر بھی غالباً چار یا پانچ اہل کار موجود تھے۔

میں اُس اہل کار سے دوبارہ ملنا چاہتا تھا جس نے مجھے گزشتہ رات روکا تھا۔ تاہم، ایک اہل کار نے، جس نے اپنا نام اسسٹنٹ سب انسپکٹر روی بتایا، میرے استفسار پر کہا۔ "رات کو جس دستے کی یہاں ڈیوٹی تھی وہ چلا گیا ہے۔ اُس کی جگہ ہم آ گئے ہیں۔‘‘

میں نے روی کو رات کا واقعہ سنایا تو وہ کہنے لگے۔ "کیا کریں صاحب، کبھی کبھی پوچھنا پڑتا ہے'‘۔ تاہم، انہوں نے فوری طور پر یہ بھی کہا: "ہم سب اُس جیسے نہیں ہیں۔"

سری نگر کے کئی علاقوں میں جن میں پُرانا شہر خاص طور پر شامل ہے، 25 دن سے مسلسل پابندیاں عائد ہیں۔ صورتِ حال مخدوش ہے۔ جموں و کشمیر کی نیم خود مختاری کو ختم کر کے ریاست کی دو حصوں میں تقسیم اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقے بنانے کے بھارتی حکومت کے فیصلے کے خلاف لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وادی کشمیر میں تمام کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔ سڑکوں سے پبلک ٹرانسپورٹ غائب ہے اور انتظامیہ کی طرف سے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کے کئی روز بعد بھی ان میں طالب علموں کی حاضری نہ ہونے کے برابر ہے۔

یہ بھارتی زیرِ انتظام کشمیر کے لیے کڑا وقت ہے۔ صبح ہوتے ہی سیکورٹی فورسز اپنے اپنے کمانڈ مراکز اور کیمپوں میں جلدی جلدی ناشتہ کر کے ایسی بسوں میں بیٹھ جاتے ہیں جن کی دونوں طرف کی کھڑکیوں کو ٹین کی چادروں سے بند کیا گیا ہوتا ہے، تاکہ وہ راستے میں ہونے والے پھتراؤ سے زخمی نہ ہوں۔

بھارتی پارلیمان میں پانچ اگست کو وزیرِ داخلہ امیت شاہ کی طرف سے آئین ہند کی دفعہ 370 کو، جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت حاصل تھی، منسوخ کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا بل پیش کرنے سے چند دن پہلے نئی دہلی نے وفاقی پولیس فورسز اور نیم فوجی دستوں کی ایک بھاری تعداد کو ریاست پہنچا دیا تھا۔

ان سیکورٹی دستوں کی اکثریت کو صبح سات بجے کے قریب بسوں کے ذریعے شہر کے مختلف حصوں میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ جب کہ افسر اور باقی اہل کار بکتر بند گاڑیوں میں جو 'بنکر وہیکلز ' کہلاتی ہیں یا پھر پنجرہ نما ون ٹن گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ یہ اہل کار خود کار ہتھیاروں، چِھرے والی بندوقوں اور اشک آور گیس کے گولوں اور انہیں چلانے کے آلات سے لیس ہوتے ہیں۔

ان میں سے چند ایک منتخب علاقوں کی سڑکوں کے کونوں پر یا تنگ و تاریک گلیوں کے دہانوں پر دن بھر پہرہ دیتے ہیں۔ ان کے باقی ساتھی سڑکوں اور بند بازاروں میں گشت کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ غروبِ آفتاب تک جاری رہتا ہے۔

شام کے تقریباً سات بجے ان سکیورٹی دستوں کی واپسی شروع ہو جاتی ہے۔ اس موقع پر انہیں اکثر تنگ گلیوں سے برآمد ہونے والے نوجوانوں کے ہجوموں کے پتھراؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جس کے جواب میں وہ اشک آور گیس اور کبھی کبھی چھرے والی بندوقوں کا استعمال کرتے ہیں۔

کئی شہریوں کا کہنا ہے کہ حفاظتی دستے اس مرتبہ ایسے مواقع پر ماضی کے مقابلے میں صبر و تحمل سے کام لے رہے ہیں۔ تاہم، کئی لوگوں نے یہ شکایت بھی کی ہے کہ سیکورٹی اہل کاروں نے حالیہ دنوں میں پتھراؤ کے جواب میں قریبی مکانوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

سری نگر کے آنچار اور تیل بل علاقوں کے باشندوں نے الزام لگایا ہے کہ ان کے مظاہروں اور پتھراؤ کے واقعات کے بعد مقامی پولیس اور بھارتی حفاظتی دستوں نے نجی گھروں میں زبردستی گھس کر اور سڑکوں پر پارک کی گئی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی۔ مکینوں کو مارا پیٹا اور لوگوں کو اندھا دھند گرفتار کیا۔

شام کے سات اور رات کے دس بجے کے درمیان وفاقی فورسز جن کی مدد مقامی پولیس کرتی ہے، سری نگر کی تمام چھوٹی بڑی سڑکوں پر ناکے قائم کیے جاتے ہیں اور ہر آنے جانے والی گاڑی کی تلاشی لیتے اور ان میں سوار افراد سے پوچھ گچھ کرتے ہیں۔

دس بجے کے بعد وہ ریت کے بنکروں اور مورچوں میں چلے جاتے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتے کے دوران سری نگر اور وادی کے دوسرے شہریوں اور قصبوں میں اس طرح کے بنکروں اور مورچوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

روی نے بتایا کہ حفاظتی اہل کاروں کے لیے دوپہر کا کھانا عموماً ون ٹن گاڑیوں کے ذریعے پہنچایا جاتا ہے۔ لیکن، اگر کسی علاقے میں یا راستے میں مظاہرے یا پتھراؤ ہو رہا ہو تو انہیں اپنے پاس رکھے ہوئے سادہ پانی، مونگ پھلی اور بسکٹس پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں وہ انہیں کھانا رات کو اپنے اپنے کیمپوں یا کمانڈ مراکز پر پہنچنے کے بعد ہی ملتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ وادی میں مواصلاتی وسائل پر جاری پابندی کی وجہ سے سیکورٹی اہل کار بھی اپنے گھر والوں سے رابطہ نہیں کر پا رہے ہیں جس سے ان کے رویوں پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔