بھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ آئندہ ہفتے جنوبی ایشیائی ممالک کے علاقائی تعاون کی تنظیم (سارک) کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان آ رہے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے کہ اس موقع پر ان کی پاکستانی عہدیداروں سے ملاقات میں دوطرفہ امور پر بھی تبادلہ خیال ہو گا۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے جمعرات کو اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران بھارتی وزیر داخلہ کی پاکستان آمد کی تصدیق تو کی مگر ان کے بقول دو طرفہ ملاقات کے حوالے سے اس وقت وہ کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔
’’توقع یہی جاتی ہے کہ اس موقع پر دو طرفہ ملاقاتیں ہوں، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ اس طرح کی کوئی ملاقات ایجنڈے پر ہے یا نہیں۔‘‘
نفیس ذکریا نے مزید کہا کہ اگر ایسی کوئی ملاقات ہو گی تو پاکستان "تمام معاملات پر اپنے تحفظات ان کے سامنے رکھے گا (بھارتی وزیر) اور وہ بھی اپنے معاملات ہمارے سامنے رکھیں گے۔"
بھارتی وزیر داخلہ ایک ایسے وقت پاکستان آ رہے ہیں جب خاص طور پر بھارتی کشمیر کی حالیہ کشیدہ صورتحال پر دونوں ملکوں کے درمیان تلخ بیان بازی دیکھنے میں آئی ہے جس کی وجہ سے پہلے سے کشیدگی کے شکار دوطرفہ تعلقات میں مزید تناؤ پیدا ہوا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں ایک علیحدگی پسند کمشیری کمانڈر برہان وانی کی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں موت اور پھر اس کے خلاف شروع ہونے والے مظاہروں میں احتجاج کرنے والوں کی سکیورٹی فورسز سے مڈھ بھیڑ میں لگ بھگ 50 افراد کی ہلاکت سے بھارتی کشمیر میں صورتحال انتہائی کشیدہ ہے۔
پاکستان، کشمیر کے اس حصے میں بھارتی سکیورٹی فورسز کی طرف سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں پر اپنی شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بین الاقوامی برادری کو اس معاملے پر توجہ دینے کا مطالبہ کرتا ہے۔
تاہم بھارت نے جہاں پاکستانی تشویش کو مسترد کرتے ہوئے اسے اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا وہیں ایک بار پھر بھارتی عہدیداروں کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ پاکستان کشمیر میں تشدد کو ہوا دے کر حالات بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اسلام آباد ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ بھارتی کشمیر کے شہریوں کی سفارتی، سیاسی اور اخلاقی حمایت جاری رکھے گا اور بھارت کو چاہیے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے کشمیریوں کو دیے گئے حق خودارادیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہاں استصواب رائے کروائے۔
کشمیر دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان متنازع علاقہ جس کا ایک حصہ پاکستان اور ایک بھارت کے زیر انتظام ہے۔
کشمیر کو منقسم کرنے والی عارضی حد بندی (لائن آف کنٹرول) پر فائر بندی کے معاہدے کے باوجود گزشتہ سال تواتر سے دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز میں فائرنگ و گولہ باری کا تبادلہ ہوتا رہا جس میں دونوں طرف جانی نقصان بھی ہوا۔ دونوں ہی ملک فائربندی کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جامع مذاکرات کی بحالی کے اعلان کے باوجود اب تک یہ سلسلہ شروع نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس ضمن میں پیش رفت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
امریکہ دونوں ملکوں کو پر زور دیتا ہے کہ وہ اپنے تصفیہ طلب معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی راہ اختیار کرے کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطے کے امن کے لیے کسی بھی طرح سودمند نہیں ہے۔