سری نگر: بھارتی وزیرِ دفاع نِرملا سیتھا رَمن سرینگر پہنچ گئیں

فائل

بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا ہےکہ وزیرِ دفاع نے جمعہ کو بھارت کی بّری فوج کے سربراہ جنرل بِپِن راوت کے ساتھ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ساتھ ملنے والی حد بندی لائین پر جا کر وہاں تعینات فوجی افسروں اور جوانوں سے ملکر تبادلہ خیالات اور وہاں کی صورتِ حال کا بنفسِ نفیس مشاہدہ کیا

اس ماہ کے آغاز پر بھارت کی دوسری خاتون وزیرِ دفاع کا عہدہ سنبھالنے کے بعد یہ نِرملا سیتھا رَمن کا نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کا پہلا دورہ ہے۔ وہ یہاں دو دن قیام کریں گی اور اس دوران سرینگر اور لیہہ میں بھارتی مسلح افواج کے اعلیٰ کمانڈروں سے ملکر پاکستان کے ساتھ ملنے والی لائین آف کنٹرول اور لداخ میں چین-بھارت سرحد یعنی لائین آف ایکچول کنٹرول پر پائی جانے والی صورتِ احوال کے ساتھ ساتھ نئی دہلی کے زیرِ انتطام کشمیر کے اندرونی حالات کا جائزہ لیں گی۔

بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے بتایا ہےکہ وزیرِ دفاع نے جمعہ کو بھارت کی بّری فوج کے سربراہ جنرل بِپِن راوت کے ساتھ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ساتھ ملنے والی حد بندی لائین پر جا کر وہاں تعینات فوجی افسروں اور جوانوں سے ملکر تبادلہ خیالات اور وہاں کی صورتِ حال کا بنفسِ نفیس مشاہدہ کیا۔

وہ گورنر نریندر ناتھ ووہرا اور وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی سے ملاقائیں کر رہی ہیں اور سنیچر کے دِن سطح سمندر سے تقریباً اُنیس ہزار فٹ کی بلندی پر واقع سیاچن گلیشئیر کا دورہ کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہیں۔ اگرچہ دنیا کے اس بلند ترین میدانِ جنگ میں بندوقیں طویل عرصے سے خاموش پڑی ہیں ہر سال وہاں تعینات درجنوں بھارتی فوجی سخت سردی کی وجہ سے فراسٹ بائٹ یا پالے کی مار اور دوسری موسمی بیماریوں یا حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں۔

بھارتی عہدیداروں کا کہنا ہے لداخ میں بھارت-چین سرحد پر حال ہی میں چند ناخوشگوار واقعات پیش آنے کے بعد اب حالات معمول پر آگئے ہیں۔ تاہم، پاکستان کے ساتھ ملنے والی حد بندی لائین پر، اُن کے بقول، دَر اندازی اور فائرنگ کے واقعات مسلسل پیش آرہے ہیں جس پر نئی دہلی کو تشویش ہے۔

ان کے مطابق، جموں کے علاقے میں بھارت-پاکستان سرحد جو نئی دہلی میں انٹرنیشنل بارڈر اور اسلام آباد میں ورکنگ بوانڈری کہلاتی ہے کے بعض حصوں میں کم و بیش ایسی ہی صورتِ حال پائی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں ایک دوسرے پر سرحدوں پر نومبر 2003 میں طے پانے والے فائر بندی کے سمجھوتے کی خلاف ورزی کرکے ایک دوسرے کے فوجی ٹھکانوں اور شہری علاقوں کو فائرنگ اور شیلنگ کرکے ہدف بنانے میں پہل کرنے کا الزام لگاتے چلے آئے ہیں۔ ان واقعات میں حد بندی لائین کے دونوں طرف فوجیوں اور عام شہریوں کو جانی نقصان اُٹھانا پڑ رہا ہے، املاک تباہ ہورہی ہیں اورہزاروں کنبے نقلِ مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

بھارت نے گزشتہ سال ستمبر میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں، بقول اُن کے، دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف سرجیکل سٹرائکس کرنے کا دعویٰ کیا تھا جس کی پاکستان نے تردید کی تھی۔ بھارت کے فوجی سربراہ جنرل راوت نے گزشتہ دنوں اس طرح کی کارروائی ایک مرتبہ پھر کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ لیکن بھارت کے ایک اخبار میں جمعہ کو چھپی ایک رِپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک سال پہلے مبینہ طور پر کی گئی سرجیکل سٹرائکس کے بعد حد بندی لائین پر دراندازی اور فائرنگ کے واقعات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے اور خود نئی دہلی کے زیرِ انتظام میں دہشت گردی کے واقعات میں ہونے والی ہلاکتوں میں 31 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں جسے نئی دہلی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار کنفلکٹ منیجمنٹ نے تیار کیا ہے کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال کی 246 کے مقابلے میں اس سال ستمبر تک 323 ہلاکتیں پیش آئی ہیں۔

اسی دوران، جمعہ کو پولیس اور نیم فوجی دستوں نے سرینگر میں محرم کی 8 تاریخ کو نکالے جانے والے روایتی ماتمی جلوس پر حکومت کی طرف سے ایک مرتبہ پھر پابندی لگائے جانے کے بعد شہر کے کئی علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں عائید کیں۔ بعد دوپہر جب شعیہ مسلمانوں نے تعزیہ نکالنے کی کوشش کی تو حفاظتی دستوں نے ان پر آنسو گیس چھوڑی، بانس کے ڈنڈے چلائے اور گرفتاریاں عمل میں لائیں۔

متعدد افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ عہدیدار کہتے ہیں کہ ماتمی جلوس پر پابندی امن و امان کو برقرار رکھنے کے لئے لگائی گئی۔ تاہم، شعیہ اکثریتی علاقوں میں بعض ضوابط کے تحت تعزیے نکانے اور ماتمی مجالس منعقد کرنے کی اجازت دی گئی۔