عہدیداروں کے مطابق، 31 سالہ محمد رمضان پرے چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا۔ وہ چھہ سال پہلے بھارت کے سرحدی حفاظتی دستے بارڈر سِکیورٹی فورس یا بی ایس ایف میں بھرتی ہوا تھا۔
عہدیداروں نے بتایا کہ بدھ کی رات نا معلوم مسلح افراد دارالحکومت سرینگر سے تقریباً 30 کلومیٹر شمال میں واقع حاجن علاقے میں پرے کے گھر میں زبردستی داخل ہوگئے جہاں انہوں نے اُسے نزدیک سے گولی مارکر ہلاک کر دیا۔ افرادِ خانہ نے جب شور مچایا تو عہدیداروں کے بقول، حملہ آوروں نے انہیں زد و کوب کیا اور پھر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پرے کا والد، دو بھائی اور چاچی زخمی ہوگئے۔
پو پھٹے ہی بھارتی فوج نے مقامی پولیس کے عسکریت مخالف اسپیشل آپریشنز گروپ (ایس او جی) اور بھارت کے وفاقی پولیس فورس سی آر پی ایف کے ساتھ مل کر حاجن کے قریب واقع دو دیہات میں بڑے پیمانے پر تلاشی کی کارروائی شروع کردی جو آخری اطلاع آنے تک جاری تھی۔
پولیس کے ایک عہدیدار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آپریشن یہ اطلاع ملنے پر شروع کیا گیا کہ مسلح افراد، اُس کے اپنے الفاط میں، ’’جرم کا ارتکاب کرنے کے بعد ان دیہات کی طرف بھاگ گئے تھے‘‘۔
نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ شیش پال وید نے مسلح افراد کی حرکت کو ’’وحشیانہ اور غیر انسانی‘‘ قرار دیدیا اور قسم کھائی کہ انہیں عنقریب کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔
علاقے کے انسپکٹر جنرل آف پولیس نِتیش کمار نے کہا ہے کہ پولیس کو یقین ہے کہ اس واقعے میں کالعدم لشکرِ طیبہ کا ہاتھ ہے۔ نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لشکر سے وابستہ محمد بھائی اور اُس کے دو سے تین ساتھیوں نے ملکر پرے پر پہلے چاقو سے حملہ کردیا اور پھر اندھا دھند گولیاں چلائیں جس سے وہ موقعے ہی پر ہلاک ہوگیا اور چار دوسرے افرادِ خانہ زخمی ہوگئے۔
وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بدقسمی ہے کہ پرے کو ایک ایسے موقعے پر قتل کیا گیا جب وہ چھٹی پر اپنے گھر والوں سے ملنے آیا تھا۔ بقول اُن کے، "تشدد کا نہ تھنے والا سلسلہ ہمارے معاشرے با الخصوص نوجوان نسل کو تباہ کر رہا ہے"- وزیرِ اعلیٰ نے تمام مکاتبِ فکر کے لوگوں سے آگے آکر تشدد کے خاتمے کے لئے کی جانے والی کوششوں کا فعال حصہ بننے کی اپیل کی۔
یہ نئی دہلی کے زیرِانتظام شورش زدہ کشمیر میں چھہ ماہ کے دوران پیش آنے والا اپنی نوعیت کا تیسرا واقعہ ہے۔ 15 جون کو مشتبہہ عسکریت پسندوں نے جنوبی ضلع کلگام میں ایک پولیس اہلکار شبیر احمد ڈار کو سالانہ چھٹی کے دوران اُس کے گھر میں گھس کر ہلاک کیا تھا۔
اس سے پہلے 9 مئی کو اسی طرح کے ایک اور واقعے میں بھارتی فوج کا ایک مقامی افسر 22 سالہ عمر فیاض پرے مارا گیا تھا۔ مارچ اور اپریل میں بھی پولیس اہلکاروں یا اُن کی عدم موجودگی میں اُن کے گھروں پر حملے کئے گئے جنہیں تجزیہ نگاروں نے شورش کو دبانے کی کارروائیوں کے دوران حفاظتی دستوں کی طرف سے مقامی لوگوں پر کی جارہی مبینہ زیادتوں کا ردِ عمل قرار دیدیا تھا۔
تاہم، ان واقعات کے بعد نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس نے ایک ہدایت نامہ جاری کیا تھا جس میں پولیس والوں اور دوسرے حفاظتی اہلکاروں سے کہا گیا تھا کہ وہ اگلے چند ماہ تک چھٹی پر گھر جانے سے اجتناب کریں۔
اسی دوران، نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرگرم انسانی حقوق کارکنوں پروینہ اہنگر اور پرویز امروز کو ریاست میں تشدد اور حقوقِ بشر کی پامالیوں کو روکنے کے لئے ان کی طرف سے ایک لمبے عرصے سے کی جانے والی کوششوں کے اعتراف میں ناروے کا رافٹو پرائز دیا گیا ہے۔ پرویز امروز ایک معروف وکیل ہیں اور انسانی حقوق کے لئے لڑنے والی تنظیم جموں کشمیر کولیشن آف سِول سوسائٹیکی کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں، جبکہ پروینہ اہنگر شورش کے دوران لاپتہ ہونے والے ہزاروں افراد جن میں اُن کا اپنا بیٹا بھی شامل ہے کی کھوج لگانے کی سرگرمی میں گزشتہ 25 سال سے پیش پیش رہی ہیں۔