بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں جموں سے شائع ہونے والے سب سے پُرانے انگریزی روزنامے 'کشمیر ٹائمز' کے سرینگر میں واقع بیورو آفس کو انتظامیہ نے سیل کر دیا ہے۔
آفس مینیجر طاہر احمد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹس کے ملازمین نے وجہ بتائے بغیر سرینگر کے مشتاق پریس انکلیو میں واقع بیورو آفس کو سیل کر دیا۔
طاہر احمد کا یہ بھی کہنا تھا کہ متعلقہ حکام نے کچھ عرصہ پہلے انہیں مطلع کیا تھا کہ اخبار اپنا دفتر جس سرکاری کوارٹر سے چلا رہا تھا، اُس کی الاٹمنٹ منسوخ کر دی گئی ہے۔ لیکن اس کی کوئی وجہ نہیں بتائی جا رہی تھی اور نہ ہی اصرار کے باوجود کوئی باضابطہ تحریری حکم نامہ دکھایا جا رہا تھا۔
حکام کیا کہتے ہیں؟
ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹس کے ایک عہدیدار محمد اسلم چوہدری نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ کوارٹر 'کشمیر ٹائمز' کے بانی ایڈیٹر وید بھسین کے نام الاٹ کیا گیا تھا جن کا 15 برس قبل انتقال ہو چکا ہے۔ ظاہر ہے کسی ایسے شخص کے نام پر کوئی سرکاری املاک الاٹ نہیں کی جا سکتیں یا اس کے نام رہ سکتیں ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔
محمد اسلم چوہدری نے مزید کہا کہ 'کشمیر ٹائمز' کا دفتر سیل نہیں کیا گیا۔ وہ مشتاق پریس انکلیو ہی کے کوارٹر نمبر چار سے، جو سرکاری ملکیت ہے اور اخبار کے ایڈیٹر پرمود جموال کے نام پر الاٹ ہے، باقاعدہ چل رہا ہے۔ صرف کوارٹر نمبر نو کو بند کیا گیا ہے کیوں کہ وہ وید بھسین کے نام پر الاٹ کیا گیا تھا اور اسے اخبار کے چند ملازمین رہائش گاہ کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔
آواز بلند کرنے کے خلاف کارروائی
'کشمیر ٹائمز' کی ایگزیکٹو ایڈیٹر انورادھا بھسین نے الزام لگایا ہے کہ ڈیپارٹمنٹ آف اسٹیٹس نے الاٹمنٹ کی منسوخی یا عمارت خالی کرنے کے لیے ضروری کارروائی کے بغیر ہی اخبار کے دفتر کو تالا لگا دیا۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح پہلے انہیں جموں میں واقع اس کے سرکاری فلیٹ سے بے دخل کر دیا گیا تھا اور وہ فلیٹ نئے الاٹی کو دے دیا گیا جو کئی برس سے ان کے استعمال میں تھا۔ نیز اس فلیٹ میں توڑ پھوڑ کر کے وہاں موجود ان کے ذاتی سامان کو نقصان پہنچایا گیا۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں اسے انتقامی کارروائی اور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر اٹھایا گیا بزدلانہ اقدام قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ آواز بلند کرنے کا نتیجہ ہے۔
انورادھا بھسین نے، جو 'کشمیر ٹائمز' کے بانی ایڈیٹر وید بھسین کی صاحب زادی ہیں، الزام لگایا کہ حکومت نے انہیں اُسی دن سے ہدف بنانا شروع کیا تھا جب انہوں نے بھارت کی سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کر کے کشمیر میں پانچ اگست 2019 کے بعد عائد کی جانے والی مواصلاتی پابندیوں بالخصوص انٹرنیٹ کی سہولت پر پابندی لگانے کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کشمیر ٹائمز' نے روایت برقرار رکھتے ہوئے حکومت کے غلط اقدامات اور پالیسیوں کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی آزادی کے حق میں آواز بلند کی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت نے 'کشمیر ٹائمز' کو گرانے کے لیے سب سے پہلے اسے سرکاری اشتہارات دینا بند کیے جس کی وجہ سے یہ اخبار اقتصادی مشکلات میں گھر چکا ہے اور اس کی اشاعت بھی متاثر ہوئی ہے۔
اخبار کے خلاف اقدامات پر شدید ردِ عمل
'کشمیر ٹائمز' کے خلاف مبینہ کارروائیوں کی بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی صحافتی برادری کے ساتھ ساتھ حزبِ اختلاف کی مختلف جماعتوں نے بھی مذمت کی ہے اور انورادھا بھسین سے یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے اپنی ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ انورادھا بھسین جموں و کشمیر کی اُن چند مقامی ایڈیٹرز میں سے ایک ہیں جو بھارت کی حکومت کے ریاست میں غیر قانونی اور مداخلت پر مبنی اقدامات کے خلاف کھڑی ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ سرینگر میں ان کا دفتر بند کرنے کی کارروائی بھارتیہ جنتا پارٹی کی طرف سے ان لوگوں سے حساب برابر کرنے کا عمل ہے جو اختلاف کرنے کی جرات کرتے ہیں۔
ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے بھی ٰ'کشمیر ٹائمز' کے خلاف کارروائیوں کے ردِ عمل میں کی گئی اپنی ٹوئٹ میں کہا کہ انتظامیہ کی کارروائی سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بعض مؤقر جرائد بھارت کی حکومت کے ترجمان کیوں بن گئے ہیں اور صرف حکومتی تحریری بیانات شائع کرتے ہیں۔
ان کے مطابق آزاد رپورٹنگ کی قیمت قانونی تقاضے پورے کیے بغیر بے دخلی کی صورت میں ادا کرنی پڑتی ہے۔
اخبار کے لیے مفت کام کرنے کی پیشکش
کئی مقامی صحافیوں نے اپنے ایک مشترکہ فیس بک پیغام میں نہ صرف انورادھا بھسین کے ساتھ یکجہتی کا برملا اظہار کیا بلکہ 'کشمیر ٹائمز' کو موجودہ بحرانی صورتِ حال سے نکالنے کے لیے مفت لکھنے اور کام کرنے کی پیشکش بھی کی۔
عام لوگوں میں سے بھی کئی ایک نے 'کشمیر ٹائمز' اور انورادھا بھسین کے ساتھ یکجہتی اور ہمدردی کا اظہار کرنے کے لیے سوشل میڈیا کا رخ کیا۔
کشمیر میں صحافیوں کے لیے مشکل حالات
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں 1989 کے بعد سے مقامی صحافیوں کے لیے ہر روز جدوجہد کا دن بن گیا ہے۔ پانچ اگست 2019 کے بعد انفارمیشن بلیک آؤٹ، تمام قسم کی مواصلاتی سہولیات کی معطلی اور دوسرے سخت اقدامات کی وجہ سے ان کے لیے کام کرنا اور زیادہ مشکل بنا دیا گیا ہے۔
گزشتہ 14 ماہ کے دوران صحافیوں کو ہراساں کرنے، انہیں پولیس تھانوں یا افسران کے سامنے پیش ہو کر رپورٹس اور خبر سازی کے عمل کے بارے میں وضاحتیں پیش کرنے اور اپنے ذرائعِ افشا کرنے کے لیے دباوٴ ڈالنے کی مبینہ طور پر کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔
صحافیوں پر تشدد کے متعدد واقعات بھی پیش آ چکے ہیں۔ اس سال اپریل میں تین کشمیری صحافیوں گوہر گیلانی، پیرزادہ عاشق اور مسرت زہرا کے خلاف پولیس نے ایف آئی آرز درج کی گئیں۔
ان پر غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق سخت گیر قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا جس کے تحت جرم ثابت ہونے کی صورت میں مجرم کو سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔