سہیل انجم
سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ انڈین ائیرفورس میں کام کرنے والے جوان اور افسران مذہب کی بنیاد پر داڑھی نہیں بڑھا سکتے۔
چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی سربراہی والے بنچ نے، جس میں جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ایل ناگیشور راو بھی شامل تھے، کہا کہ ایک مخصوص فرقے کے لوگوں کے داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کرنے کا مرکزی حکومت کا فیصلہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے۔
بنچ نے اس سلسلے میں انڈین ائیرفورس کے دو مسلم افسران محمد زبیر اور انصاری آفتاب احمد کے ذریعے داخل کردہ اس عرضداشت کو خارج کر دیا جس میں دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
دونوں نے انڈین ائیرفورس اتھارٹی کے ذریعے 24 فروری 2003 کو جاری کیے جانے والے اس محکمہ جاتی حکم نامے کو دہلی ہائی کورٹ کے ایک یک رکنی بنچ میں چیلنج کیا تھا جس میں مسلمانوں کے داڑھی رکھنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ انصاری آفتاب احمد کو داڑھی رکھنے کے اصرار پر ملازمت سے برطرف کر دیا گیا تھا۔
آفتاب احمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے مذہب کی بنیاد پر داڑھی رکھی ہے اور فضائیہ سے انھیں برطرف کرکے ان کے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا ہے۔ انہوں نے اپنی عرضداشت میں کہا تھا کہ آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے تحت داڑھی بڑھانا ان کا بنیادی حق ہے۔
انہوں نے دلیل دی تھی کہ جس طرح فضائیہ میں سکھوں کو داڑھی اور پگڑی رکھنے کی اجازت ہے اسی طرح ان کو بھی اجازت دی جائے۔
لیکن پہلے دہلی ہائی کورٹ کے یک رکنی بنچ نے اور بعد کو ڈویژن بنچ نے ان کی درخواست مسترد کر دی جسے انہوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
متعدد مسلم تنظیموں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ اسلامک فقہ اکیڈمی کے مفتی احمد نادرالقاسمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فیصلے کو آئین کے ذریعے دی گئی مذہبی آزادی کے منافی قرار دیا اور کہا کہ داڑھی رکھنا سنت اور واجب ہے۔ جس طرح سکھوں اور دوسروں کو اس کی اجازت ہے اسی طرح مسلمانوں کو بھی اجازت ملنی چاہیے۔
انڈین ائیرفورس نے عدالت میں دلیل دی تھی کہ تمام مسلمان داڑھی نہیں بڑھاتے۔ اسلام میں داڑھی بڑھانا اختیاری ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مسلمانوں کا مذہب داڑھی اور بال کاٹنے کو ممنوع قرار دیتا ہے۔
فضائیہ کے ضابطے کے مطابق جو مسلمان یکم جنوری 2002 سے قبل ملازمت حاصل کرنے کے وقت داڑھی اور مونچھ رکھے ہوئے تھے صرف وہی رکھ سکتے ہیں۔
سابقہ یو پی اے حکومت نے پہلے مسلم جوانوں کے داڑھی بڑھانے کی حمایت کی تھی اور کہا تھا کہ اس بنیاد پر کسی مسلم جوان کے خلاف کارروائی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن بعد میں اپنا موقف تبدیل کر لیا۔