ماہ رمضان کے دوران بھارتی کشمیر میں فوجی آپریشن معطل رکھنے کا اعلان

فائل

بھارت کی وزارتِ داخلہ نے بُدھ کی سہ پہر یہ اعلان کیا ہے کہ نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن کو رمضان کے مہینے کے دوران معطل رکھا جائے گا، تاکہ، اس کے بقول، ’’امن پسند مسلمانوں کو اس مقدس مہینے کو پُرامن ماحول میں گزانے کا موقعہ فراہم کیا جاسکے‘‘۔

وزارت داخلہ نے اپنی ایک ٹویٹ میں یہ بھی کہا کہ وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ نے ریاست کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی کو اس فیصلے کے بارے میں مطلع کردیا ہے۔

وزیرِ اعلیٰ نے اپنے فوری ردِ عمل میں کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کا دل و جان سے خیر مقدم کرتی ہیں اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی اور وزیرِ داخلہ راجناتھ سنگھ کی طرف سے کی گئی ذاتی مداخلت کے لئے اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں۔

اُن کا واضح اشارہ حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور بھارت کی وزیرِ دفاع نرملا سیتھا رَمن کی جانب سے یکطرفہ فائر بندی کی تجویز کی مخالفت کئے جانے کی طرف تھا۔

محبوبہ مفتی نے 9 مئی کو سری نگر میں منعقدہ ایک کُل جماعتی اجلاس کے اختتام پر نامہ نگاروں کو اس کی بریفنگ دیتے ہوئے نئی دہلی پر زور دیا تھا کہ وہ ریاست میں سرگرم عسکریت پسندوں کے خلاف گزشتہ کئی ماہ سے چلائی جانے والی سخت فوجی مہم کو معطل کرکے رمضان کے مہینے میں فائر بندی کا اعلان کردے۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ شرکائے اجلاس کی متفقہ رائے تھی کہ حکومتِ بھارت فائر بندی کی تجویز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اجلاس کے دوران یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ایک کُل جماعتی وفد عنقریب وزیرِ اعظم نریندر مودی سے ملاقات کرکے اُن پر زور دے گا کہ وہ کشمیر میں سیاسی رابطوں کو بڑھانے کے لئے پیش رفت کریں۔

لیکن اُن کی حلیف جماعت بی جے پی نے فائر بندی کی تجویز کی شدید مخالفت کی تھی یہ کہہ کر کہ اس سے عسکریت پسندوں کو جن کے خلاف، اس کے بقول، ’’فوج کامیابی پہ کامیابی حاصل کرکے صورتِ حال پر غلبہ پاچکی ہے از سرِ نو صف بندی کا موقعہ ملے گا‘‘۔

بھارت کی وزیرِ دفاع نرملا سیتھا رمن نے بھی تجویز کو بالواسطہ طور پر رد کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ فوج کو، اُن کے اپنے الفاظ میں، ’’دہشت گردی کی سرگرمیوں کے ساتھ جو جموں و کشمیراور باقی ماندہ ملک میں امن اور ہم آہنگی کے لئے خطرہ ہیں سختی کے ساتھ نمٹنا ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ فوج کا اس سلسلے میں یہ موقف ہے اسے دہشت گردی کا سختی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔ اور میں سمجتھی ہوں کہ جموں و کشمیر کے معاملات سے انتہائی حساسیت کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔ بھارت فوج کو یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ بھارت ایک محفوظ ملک ہے"۔

محبوبہ مفتی نے بھارتی وزیرِ اعظم اور وزیرِ داخلہ کے ساتھ ساتھ اُن سیاسی لیڈروں اور جماعتوں کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے کُل جماعتی اجلاس میں شرکت کرکے، ان کے بقول، ’’اس معاملے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں مدد دی جو بُدھ کے روز کئے گئے فائر بندی کے اعلان پر منتج ہوا‘‘۔

انہوں نے کہا کہ رمضان کا مہینہ امن کا نقیب ہے اور یہ فیصلہ امن کی بحالی اور پائیدار سلسلہ جنبانی شروع کرنے کے لئے راہ ہموار کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

حزبِ اختلاف کی بھارت نواز جماعت نیشنل کانفرنس کے لیڈر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھی بھارتی حکومت کی طرف سے کئے گئے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ۔"بی جے پی کو چھوڑ کر جو اس کے خلاف تھی تمام سیاسی جماعتوں کے مطالبے پر وفاقی حکومت نے یکطرفہ فائر بندی کا اعلان کردیا ہے۔ اب اگر عسکریت پسندوں نے اس کا باہم جواب نہیں دیا تو وہ لوگوں کے اصلی دشمن کی حیثیت سے بے نقاب ہوجائیں گے"۔

ریاست میں سرگرم عسکریت پسندوں یا آزادی پسند سیاسی قیادت نے تاحال بھارتی حکومت کے اعلان پر کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس سے پہلے سرکردہ آزادی پسند لیڈروں سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ محمد عمر فاروق اور محمد یاسین ملک پر مشتمل اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ہفتے کے روز جب بھارتی وزیرِ اعظم ریاست کے ایک روزہ دورے پر نئی دہلی سے سری نگر پہنچیں گے شہر کے تاریخی لال چوک پر پہنچ کر دنیا پر یہ باور کرائیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

فائر بندی کے اعلان پر اپنے ردِ عمل میں علاقائی جماعت عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ اور ریاستی قانون ساز اسمبلی کے رُکن انجینئیر رشید نے کہا، "یہ اعلان کشمیریوں کی فتح ہے۔ مسئلہ کشمیر کو پُر امن طور پر حل کرنے کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔ اس سے کشمیریوں کے اس موقف کی تائید ہوتی ہے کہ عسکریت پسند دہشت گرد نہیں ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "اس فیصلے سے یہ بات بھی سامنے آگئی ہے کہ نئی دہلی نے ہوش کے ناخن لینا شروع کردیا ہے کیونکہ عسکریت پسندوں کو مار کر وہ نہ صرف اُن کے لئے عام لوگوں کی ہمدردیاں کے حصول کے سامان پیدا کر رہی تھی بلکہ نئے نوجوان ان کی جگہ لیکر عسکریت پسندوں کی صفوں کو مزید مضبوط کر رہے تھے"۔

ادھر، بدھ کو رات گئے لشکرِ طیبہ نے بھارتی حکومت کے اعلان کو ’’ڈرامہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا۔ کالعدم عسکری تنظیم کے ترجمان ڈاکٹر عبد اللہ غزالی نے ایک مقامی خبر رساں ادارے کو فون کرکے بتایا کہ تنظیم کے سربراہ محمود شاہ نے کہا ہےکہ فائر بندی کوئی آپشن نہیں ہے۔ لہٰذا، یہ قابلِ توجہ نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ"ہم اسے ایک گناہ اور جدوجہدِ آزادی کی راہ میں دی گئی قربانیوں کے لئے ذلت سمجھتے ہیں۔ ہم شہداء کے وارث ہیں اور اس طرح کا انتخاب اُن کی طرف سے بہائے گئے خون کی توہین ہوگی"۔

ترجمان نے کہا کہ ’’لشکرِ طیبہ کشمیر کے مسئلے پر مذاکرات کے خلاف نہیں ہے۔ لیکن، مذاکرات تب تک نہیں ہوسکتے، جب تک بھارت کی مسلح افواج کشمیر میں موجود ہیں"-