بھارت اور افغانستان کے درمیان دوستانہ رشتے رہے ہیں۔ بھارت افغانستان کی ترقیاتی سرگرمیوں میں پیش پیش رہا ہے اور اب تک وہاں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ لیکن وہ قیامِ امن کے لیے طالبان سے مذاکرات پر بظاہر فی الحال تیار نہیں ہے۔
بھارت نے اتوار کے روز افغان صدر اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہونے والے شراکتِ اقتدار معاہدے کا خیرمقدم کیا ہے جس کے مطابق عبداللہ عبداللہ صدر کے بعد ملک میں دوسری اہم پوزیشن سنبھالیں گے۔
بھارت کا کہنا ہے کہ اس نے خطے میں جامع گورننس کی ہمیشہ حمایت کی ہے۔
وزارتِ خارجہ نے ایک پریس نوٹ میں کہا ہے کہ بھارت کو امید ہے کہ جو سیاسی معاہدہ ہوا ہے اور جو قومی افہام و تفہیم کونسل قائم ہوئی ہے اس کے نتیجے میں امن و استحکام کے قیام اور بیرونِ ملک سے جاری دہشت گردی اور تشدد کے خاتمے کے لیے نئی کوششیں شروع ہوں گی۔
اس نے کرونا وائرس کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے اپیل کی کہ کابل حکومت خون خرابے کو روکے اور کووڈ۔19 پر توجہ مرکوز کرے۔
نئی دہلی نے گزشتہ دنوں ایک زچہ بچہ اسپتال اور ایک جنازے پر خودکش حملے کی مذمت بھی کی تھی جن میں متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ افغانستان میں تشدد اور دہشت گردی باعثِ تشویش ہے۔ بھارت سیزفائر کی اپیل کے ساتھ کرونا سے متاثرہ افراد کی مدد کی بھی اپیل کرتا ہے۔
یہ تمام معاملات ایک طرف اور طالبان سے ممکنہ مذاکرات کا معاملہ دوسری طرف۔ امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے گزشتہ دنوں دہلی آمد کے موقع پر وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے ملاقات کی تھی اور بھارت کو بتایا تھا کہ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت افغانستان میں قیامِ امن کے لیے سرگرم کردار ادا کرے۔
بعد میں انھوں نے انگریزی روزنامہ 'دی ہندو' کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت کو افغانستان میں دہشت گردی کے مسئلے پر طالبان سے براہِ راست مذاکرات کرنے چاہئیں۔
خلیل زاد نے کہا کہ انھوں نے دہلی سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں مفاہمت کے عمل میں مزید سرگرم کردار ادا کر سکتا ہے۔ افغانستان میں بھارت ایک اہم طاقت ہے اور مناسب ہو گا کہ وہ طالبان سے بات چیت کرے۔
انھوں نے مزید کہا کہ افغانستان سے بھارت کے تاریخی رشتے رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں میں بات چیت کی کافی اہمیت ہے۔
یاد رہے کہ پہلی بار امریکہ نے عوامی طور پر بھارت سے کہا ہے کہ وہ طالبان سے بات چیت کرے۔
ادھر دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اگر بھارت افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے تو وہ اس کے ساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں۔
قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ اور چیف مذاکرات کار شیر محمد عباس استانکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو ایک آڈیو پیغام میں بتایا کہ "ان کے سیاسی دفتر کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ افغانستان کے ہمسایہ ممالک، خطے اور دنیا بھر کی حکومتیں جنگ سے تباہ حال ملک میں جنگ کے خاتمے، معقول امن معاہدے اور غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد تعمیرِ نو میں مثبت اقدامات کریں۔"
ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو بھی چاہیے کہ وہ افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرے۔ "اگر بھارت کی حکومت اپنی موجودہ پالیسی پر نظرِ ثانی کرے اور اگر وہ افغانستان میں قیامِ امن، صلح اور تعمیرِ نو میں فعال کردار چاہتی ہے تو طالبان اس کا خیر مقدم کریں گے اور اسے مثبت نظر سے دیکھیں گے۔ ہمارا سیاسی دفتر اس مقصد کے لیے حاضر ہے کہ ان (بھارت) کے ساتھ اس پر اتفاقِ رائے پیدا کرے۔"
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ ہم قومی مفادات اور باہمی احترام کی بنیاد پر بھارت سمیت تمام ہمسایہ ملکوں کے ساتھ مثبت تعلقات چاہتے ہیں۔ انھوں نے یہ بات WION کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہی۔
ادھر امریکہ میں پاکستان کے سفیر اسد مجید خان کا کہنا ہے کہ اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اس سے امن عمل میں مدد ملے گی تو اسے طالبان کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ فیصلہ بھارت کو کرنا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔
طالبان سے براہِ راست مذاکرات کی زلمے خلیل زاد کی تجویز پر بھارت نے بہت محتاط ردِ عمل ظاہر کیا ہے۔
روزنامہ 'دی ہندو' کے مطابق اس معاملے سے واقف ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت نے ابھی اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ افغانستان کے بارے میں ہمارا اپنا نظریہ ہے اور افغان عوام کے ساتھ روایتی تعلقات کی روشنی میں ہم اپنی افغان پالیسی پر کوئی فیصلہ کریں گے۔
ایک سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسے وقت میں جب کہ کرونا کی وجہ سے سارے کام ویڈیو کانفرنسنگ کے توسط سے ہو رہے ہیں، زلمے خلیل زاد کا بذات خود نئی دہلی آنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
بقول ان کے خلیل زاد نے بھارت سے افغانستان میں سرگرم کردار ادا کرنے اور طالبان سے مذاکرات کرنے پر زور دیا ہے۔ لیکن کئی باتیں ہیں جن کی وجہ سے بھارت نہ تو فوجی نوعیت کا کوئی کردار ادا کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ 2003 سے اب تک افغانستان میں بھارتی ٹھکانوں پر یا جہاں بھی بھارت کا کوئی تعلق رہا ہے، 48 بڑے حملے ہو چکے ہیں۔ بھارت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کو محفوظ رکھے۔ ابھی مارچ میں کابل کے گوردوارے پر جو حملہ ہوا اس کے بعد اتنا خوف پھیل گیا تھا کہ 650 سکھوں نے بھارت کے لیے ویزا کی درخواست دی تھی۔ اس لیے بھارت کے لیے اپنے لوگوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے۔
ان کے مطابق افغانستان میں حقانی نیٹ ورک اور دوسرے گروپ بھی سرگرم ہیں۔ اگر بھارت افغانستان میں کوئی سرگرم کردار ادا کرتا ہے تو مذکورہ گروپ رفتہ رفتہ کشمیر کی جانب رخ کریں گے اور وہاں دہشت گردانہ وارداتیں انجام دیں گے۔ بھارت کے لیے یہ ایک بڑی تشویش کی بات ہو گی۔
اس سوال پر کہ طالبان سے مفاہمت کر کے بھارت ایک محفوظ صورت حال میں پہنچ سکتا ہے تو پھر وہ کیوں نہیں بات کرنا چاہتا؟ انھوں نے کہا کہ طالبان کو بھارت دہشت گرد مانتا ہے اور دہشت گردوں سے بات چیت کی اس کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں بھی دہشت گرد گروپوں سے بات کرنے کی موجودہ حکومت کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
ان کے مطابق حالانکہ اس نے روس میں اور پھر دوحہ میں ہونے والی کانفرنسوں میں اپنے مبصرین بھیجے تھے لیکن ان کا کام صرف خاموشی سے مشاہدہ کرنا تھا، کسی بھی عمل میں شریک ہونا نہیں تھا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان نہیں چاہے گا کہ بھارت افغانستان میں کوئی سرگرم کردار ادا کرے کیونکہ وہ وہاں بھارت کی ترقیاتی سرگرمیوں کو بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔
ایک اور تجزیہ کار اجے کمار کہتے ہیں کہ جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تھی تو بھارت نے اسے تسلیم نہیں کیا تھا۔ لہٰذا بھارت کے لیے طالبان کے ساتھ جنھیں وہ دہشت گرد سمجھتا ہے مذاکرات کرنا آسان نہیں ہو گا۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان اپنی تشدد پسندانہ سرگرمیوں سے باز نہیں آئیں گے۔ دوحہ میں امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ ہونے کے باوجود ان کی دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہیں۔ لہٰذا بھارت ان پر اعتماد نہیں کر سکتا اور ایسے لوگوں کے ساتھ بات نہیں کر سکتا جو ہتھیاروں اور تشدد میں یقین رکھتے ہوں۔
اجے کمار کے مطابق بھارت افغانستان میں قیام امن چاہتا ہے اور اسے ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے اس نے وہاں مختلف شعبوں میں اب تک اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ لہٰذا وہ نہیں چاہتا کہ اس نے افغانستان کی تعمیر نو کے سلسلے میں اب تک جو کچھ کیا ہے اس پر پانی پھر جائے۔