|
بھارت نے جمعرات کو کہا ہےکہ کینیڈا نے اپنے اس الزام کے بارے میں کوئی ثبوت شیئر نہیں کیا کہ بھارتی حکومت گذشتہ سال کینیڈا میں ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل میں ملوث تھی۔ باوجود اس کے کہ اس الزام میں تین بھارتی شہریوں کو حال ہی میں گرفتار کیا گیاہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے اپنے بیان میں نئی دہلی کے اس دیرینہ الزام کو بھی دہرایا کہ کینیڈا بھارتی انتہا پسندوں کو پناہ دیتا ہے۔
اس سے قبل کینیڈا کی پولیس نے کہا تھاکہ اس نے ایک علیحدگی پسند سکھ لیڈر کے قتل کےشبہے میں تین افراد کو گرفتار کیا ہے، اور وہ زیر حراست افراد اور بھارتی حکومت کے درمیان ممکنہ تعلقات کی تحقیقات کر رہی ہے۔
کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس سپرنٹنڈنٹ مندیپ موکرکا کہنا تھا کہ ان کے بھارت کی حکومت سے روابط تھے یا نہیں اس بارے میں تحقیقات جاری ہیں۔
جیسوال نے کہا کہ دونوں حکومتیں اس معاملے پر بات کر رہی ہیں لیکن کینیڈا نے بھارتی حکومت کے ملوث ہونے کے کوئی خاص ثبوت نہیں بھیجے ہیں۔
پولیس نے حراست میں لیے جانے والے افراد کی شناخت تین بھارتی شہریوں کمل پریت سنگھ، کرن برار اور کرم پریت سنگھ کے طور پر کی ہے۔ ان تینوں کی عمریں بیس اور تیس سال کے درمیان ہیں۔
پولیس نے انہیں تین مئی کو البرٹا صوبے کے شہر ایڈمنٹن میں گرفتار کیا تھا۔
SEE ALSO: کینیڈا: علیحدگی پسند سکھ رہنما نجر کے قتل کے شبہے میں تین افراد گرفتاربھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے مزیدکہا کہ نئی دہلی نے کینیڈا کے حکام سے شکایت کی ہے کہ علیحدگی پسندوں، انتہا پسندوں اور بھارت کے خلاف تشدد کی وکالت کرنے والوں کو کینیڈا میں داخلے اور رہائش کی اجازت دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری جانب سے (ایسے افراد کو) تحویل میں دیے جانے کی بہت سی درخواستیں التوا میں ہیں۔
جیسوال نے مزید کہاکہ ہمارے سفارت کاروں کودھمکایا گیا ہے اور ان کے فرائض کی انجام دہی میں رکاوٹ ڈالی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان تمام معاملات پر سفارتی سطح پر بات چیت کر رہے ہیں۔
جیسوال نے یہ بھی بتایا کہ کینیڈا میں گرفتار کیے جانے والےتین بھارتی شہریوں نے ابھی تک کینیڈا میں بھارتی سفارت کاروں تک رسائی نہیں مانگی ہے۔
SEE ALSO: کینیڈا کے 41 سفارت کاروں کوبھارت سے نکلنے کا حکمتینوں ملزمان کمل پریت سنگھ، کرن برار، اور کرن پریت سنگھ، منگل کو ایک ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش کیے گئے تھے اور انہوں نےانگریزی میں مقدمے کی سماعت پر رضامندی ظاہر کی۔ انہیں 21 مئی کو برٹش کولمبیا کی صوبائی عدالت میں دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔
ان پر فرسٹ ڈگری قتل اور قتل کی سازش کے الزامات عائد کیے گئے ہیں
سکھ لیڈر ہردیب سنگھ نجر
45 سالہ سکھ لیڈر ہردیب سنگھ نجر کو گزشتہ سال جون میں مسلح افراد نے اس وقت ہلاک کر دیا تھا جب وہ برٹش کولمبیا کے گردوارے سے باہر اپنی کار میں تھے۔ کینیڈا نے اس قتل میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے تعلق کا الزام لگایا تھا جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ سال ستمبر میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ سکھ رہنما نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے قابل بھروسہ شواہد موجود ہیں۔ جس سے دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات میں تناؤ پیدا ہو گیا تھا۔
برٹش کولمبیا میں تین مئی کو ہردیپ سنگھ نجار کے قتل میں تین ایسے بھارتی شہریوں کو گرفتار کیا گیا تھاجو عارضی طور پر کینیڈا میں مقیم تھے
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ سال ستمبر میں ایک سکھ علیحدگی پسند لیڈر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے "معتبر الزامات" کا حوالہ دیا تھا۔ جن کے نتیجے میں بھارت کے ساتھ ایک سفارتی تنازع کاآغاز ہواتھا۔
بھارت نے ان الزامات کو سختی سےمسترد کر دیا تھا۔۔
SEE ALSO: چین کے بعد بھارت کے ساتھ بحران کینیڈا کی"سادہ لوح" سفارت کاری کا ٹیسٹ ہےبھارتی ایجنسیوں کے ملوث ہونے کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ
اشنگٹن پوسٹ نے پیر کو اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ امریکی انٹیلی جینس ایجنسیوں کے مطابق امریکی سرزمین پر ایک سکھ لیڈر گرپتونت سنگھ پنوں کو قتل کرنے کے لیے کرائے کےقاتلوں کی ایک ٹیم کی خدمات حاصل کرنے کا منصوبہ امریکی حکام نے ناکام بنا دیا تھا۔
اخبار نے لکھا ہے کہ اس منصوبے کی منظوری بھارتی جاسوسی ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالائسز ونگ (RAW) کے اس وقت کے سربراہ سمنت گوئل نے دی تھی جس پر را کے ایک عہدے دار وکرم یادو کام کر رہے تھے۔
بیرون ملک ہونے والی ہلاکتوں میں را کے ملوث ہونے کے الزامات پہلی بار پچھلے سال ستمبر میں اس وقت سامنے آئے جب کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے یہ کہا تھا کہ کینیڈا سرگرمی سے ان قابل اعتبار الزامات پر کام کر رہا ہے جن کے مطابق کینیڈا کے ایک شہری ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کا تعلق ممکنہ طور پر بھارتی خفیہ ایجنٹوں سے تھا۔
وکرم یادو بھارتی خفیہ ایجنسی را کے وہ افسر ہیں جن پر الرام ہے کہ انہوں نے جون 2023 میں کینیڈا میں ایک سکھ سرگرم کارکن ہردیپ سنگھ نجر کو قتل کرنے کے منصوبے کی نگرانی کی تھی اور کرائے کے ایک قاتل کو اس بارے میں ہدایات دیں تھیں۔
واشنگٹن پوسٹ کا کہنا ہے کہ اس کی یہ رپورٹ، آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، جرمنی، بھارت اور امریکہ کی سیکیورٹی ایجنسیوں کے تین درجن سے زیادہ حاضر سروس اور سابق سینئر اہل کاروں سے کیے گئے انٹرویوز کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے۔
SEE ALSO: بھارت کا بیرون ملک قتل کی سازشوں سے انکار، 20 ہلاکتیں پاکستان میں ہوئیں، میڈیا رپورٹسواشنگٹن پوسٹ میں رپورٹ کی اشاعت کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے میڈیا کے سوالات کے جواب میں کہا ہے کہ اس رپورٹ میں ایک سنگین معاملےمیں غیر ضروری اور غیر مصدقہ الزامات لگائے گئے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی، امریکی حکومت کی طرف سے سیکیورٹی خدشات کے سلسلے میں منظم مجرموں اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کے متعلق شئیر کی گئی معلومات پر تحقیقات کر رہی ہے اور اس بارے میں دیگر قیاس آرائیوں پر مبنی تبصرے کوئی مدد نہیں دے سکتے۔
تازہ رپورٹ کے انکشافات پر امریکہ کا ردعمل
واشنگٹن پوسٹ کی اس تحقیقاتی رپورٹ کی اشاعت کے بعد وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ کی معمول کی بریفنگ میں نئی دہلی کے ملوث ہونے کے مبینہ الزامات پرایک بار پھر صحافیوں نے امریکہ کے ردعمل کے بارے میں سوالات پوچھے۔
پیر کے روز وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرین جین پیئر نے سوالوں کے جواب میں اس بات کا اعادہ کیا کہ کینیڈا اور امریکہ میں قتل کی دو سازشوں میں بھارتی خفیہ ایجنسی کا مبینہ کردار ایک سنگین معاملہ ہے۔ ہم اسے بہت سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور ہم اپنے خدشات کا اظہار کرتے رہیں گے۔
اسی بارے میں امریکی وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے ہفتہ وار بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا “ ہم بھارتی انکوائری کمیٹیوں کے کام کے نتائج کی بنیاد پر بھارتی حکومت سے جوابدہی کی توقع کرتے ہیں۔ ہم ان کے ساتھ باقاعدگی سے کام کر رہے ہیں اور اضافی معلومات کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا “ہم اپنے تحفظات کو براہ راست بھارتی حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطح پر اٹھاتے رہیں گے۔”
ہردیب سنگھ نجر بھارتی نژاد کینیڈین تھے اور وہ ایک پلمبر کے طور پر کام کرتے تھے۔ وہ ایک آزاد سکھ ریاست کی تحریک ’خالصتان کے پر زور حامی اور لیڈر تھے۔ انہوں نے دہشت گردی سے اپنے کسی بھی تعلق کی تردید کی تھی۔
اس رپورٹ کا کچھ حصہ اے پی کی معلومات پر مبنی ہے۔