بھارتی انتخابات: کیا پیاز کے کاشت کاروں کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے؟

فائل فوٹو

  • بھارتی حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں پیاز کی برآمدات پر پابندی لگا دی تھی۔ تاہم الیکشن سے چند روز قبل یہ پابندی ختم کی گئی۔ لیکن مبصرین اسے حکومت کا سیاسی حربہ قرار دے رہے ہیں۔
  • کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ برآمدات پر پابندی سے پیاز کی قیمت تین گنا کم ہو گئی تھی۔
  • کاشت کار یونین کے صدر کہتے ہیں کہ انتخابات ہمیں خوف زدہ کر دیتے ہیں۔
  • بعض کسان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ سب سے زیادہ غیر دانش مندانہ فیصلے انتخابات کے دنوں میں ہوتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کے بعض ممالک کی طرح بھارت میں بھی پیاز لگ بھگ ہر کھانے میں استعمال ہوتی ہے اور ان دنوں سستا پیاز ملنے سے خریدار تو خوش ہیں لیکن کسان پریشان ہیں۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت نے گزشتہ برس دسمبر میں پیاز کی برآمد پر پابندی عائد کر دی تھی جس کی وجہ سے مقامی سطح پر پیاز کی قیمتوں میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی لیکن اس سے ملک کے بعض علاقوں میں کاشت کار مشتعل ہو گئے ہیں۔

کاشت کاروں کا کہنا ہے کہ سیاست دانوں کے فیصلوں سے خرید و فروخت کا رجحان بری طرح متاثر ہوا ہے اور خریداروں کی بچت کاشت کاروں کے اخراجات کی صورت میں سامنے آ رہی ہے۔

کنہا ویشنو گلاوے کا تعلق بھارت کے ضلع ناسک سے ہے اور وہ پیاز کے کاشت کار ہیں۔ کنہا کے مطابق پیاز کی برآمدات اور مقامی سطح پر قیمتوں میں کمی کے معاملے پر حکومت نے کسانوں سے کئی بار مذاکرات کیے لیکن حکومتی اقدامات سے کسانوں کا صرف نقصان ہی ہوا ہے۔

ناسک بھارت میں سب سے زیادہ پیاز کی پیداوار والا ضلع ہے جہاں ملکی ضرورت کی 40 فی صد پیداوار ہوتی ہے۔

کنہا وشنو نے دسمبر 2023 میں پیاز کی برآمدات پر پابندی کو کاشت کاروں کے ساتھ دھوکہ قرار دیا اور شکوہ کیا کہ ووٹرز کو خوش کرنے کے لیے سبزیوں اور اناج کی قیمتیں کم کر کے کسان کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔

SEE ALSO: بھارت: جی 20 اجلاس کے دوران کسانوں کا احتجاج

بھارتی ریاست مہاراشٹرا میں پیاز کے کاشت کاروں کی یونین کے صدر بھارت دھگولے کہتے ہیں "انتخابات ہمیں خوف زدہ کر دیتے ہیں کیوں کہ سب سے زیادہ غیر دانش مندانہ فیصلے انتخابات کے دنوں میں ہوتے ہیں۔"

پیاز کی برآمد پر پابندی کا ذکر کرتے ہوئے بھارت دھگولے نے کہا کہ ملک میں پیاز کی قیمت تیزی سے نیچے آئی ہے جب کہ کاشت کاری کے اخراجات دو گنا ہو گئے ہیں۔

بھارت کی مختلف ریاستوں میں اس وقت 100 کلو پیاز کے بورے کی اوسط قیمت 1500 سے 2500 روپے کے درمیان ہے۔

بھارت دھگولے کے مطابق ملک میں تمام انتخابات کسانوں کے نام پر لڑے جاتے ہیں لیکن حکومتی پالیسی واضح طور پر صارفین کے حق میں ہوتی ہے۔

پیاز کی برآمد پر پابندی کے بعد مہاراشٹرا میں کئی مقامات پر احتجاج بھی ہوئے تھے۔

بھارت کی ایک ارب 40 کروڑ آبادی میں سے ایک تہائی افراد کا گزر بسر زراعت پر ہوتا ہے جب کہ ملک کے جی ڈی پی میں زراعت کا پانچواں حصہ ہے۔

بھارت میں حکومت کی مقبولیت کا اندازہ لگانے کے لیے پیاز کو بھی بعض لوگ ایک پیمانہ قرار دیتے ہیں۔ ماضی میں پیاز کی قیمت کی وجہ سے کئی بڑے احتجاج بھی ہوئے ہیں جب کہ حکومتوں کو مشکل حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

بھارتی کسان ،نہنگ سکھ کون ہیں

سال 1998 میں پیاز کی قیمتوں پر ہونے والے احتجاج کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو دہلی کے ریاستی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس کے بعد سے آج تک بی جے پی کو دوبارہ ریاست میں حکومت سازی کا موقع نہیں ملا۔

رواں برس اپریل میں بھارت کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کے انتخابات شروع ہونے سے قبل بی جے پی کی حکومت نے پیاز کی برآمد پر عائد پابندی ختم کر دی تھی۔ لیکن مبصرین نے اسے ایک سیاسی حکمتِ عملی قرار دیا تھا۔

بھارت کے کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز سے وابستہ معاشی ماہر اشوک گلاٹی کہتے ہیں کہ پیاز کی برآمدات پر پابندی کا خاتمہ سیاسی بیان بازی کے سوا کچھ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کم سے کم برآمدی قیمت اور 40 فی صد برآمدی ڈیوٹی کا اطلاق اب بھی ہے، تو اس صورتِ حال میں پیاز برآمد کرنا ناممکن ہو چکا ہے جس کے سبب کسان بے چین ہیں۔

SEE ALSO: بھارت میں کسان ایک بار پھر سڑکوں پر کیوں ہیں؟

ریاست مہاراشٹرا کے ضلع ناسک میں پیاز کی ہول سیل مارکیٹ کے 58 سالہ نائب صدر جگن ناتھ کوٹے کہتے ہیں کہ حکومت میں موجود اعلیٰ عہدوں کی شخصیات سمجھتی ہیں کہ اگر پیاز کی قیمت بڑھ گئی تو ان کی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ انتخابات کے بعد آنے والی نئی حکومت کاشت کاروں کے مسائل حل کرے گی۔

جگن ناتھ کوٹے بھارتی شہریوں پر بھی زور دیتے ہیں کہ وہ کسانوں کے بارے میں بھی سوچیں۔ ان کے بقول لوگ ایندھن اور کھانے کے تیل کی قیمت میں اضافے کو تو نگل گئے ہیں۔ لیکن کھانے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافے پر سوال اٹھاتے ہیں۔

پیاز کی ایک نیلامی میں موجود 30 سالہ کاشت کار اکشے ترلے کا کہنا تھا "ہماری تو بس یہی امید ہے کہ ہمارا سودا خسارے میں نہ جائے۔"

سبزیوں کی مارکیٹ میں موجود ایک اور کسان وکاس باباجی نے کہا کہ جس وقت میں اپنے گھر سے روانہ ہو رہا تھا تو اس وقت مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ کیا مجھے میری پیداوار کی درست قیمت ملے گی۔

وکاس بابا جی کی عمر لگ بھگ 36 برس ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں "میرے گھر والے ضرورت کی مختلف اشیا لانے کا کہتے ہیں۔ لیکن کئی دن ہو گئے ہیں میرے پاس رقم موجود نہیں ہے کہ میں وہ اشیا گھر لے جا سکوں۔"

Your browser doesn’t support HTML5

بھارتی کسانوں کا دہلی کی طرف پھر مارچ: معاملہ کیا ہے؟

انڈین کونسل فار ریسرچ آن انٹرنیشنل اکنامک ریلیشنز سے وابستہ معاشی ماہر اشوک گلاٹی کے مطابق برآمدات پر پابندی اور کسی چیک کے بغیر دالوں سمیت دیگر اشیا کی درآمدات سے مقامی مارکیٹ کو نقصان ہو رہا ہے۔

بھارتی میڈیا میں سامنے آنے والے اعداد و شمار سے ظاہر ہو رہا ہے کہ دالوں کی درآمد گزشتہ چھ برس میں سب سے بلند سطح پر پہنچ چکی ہے اور 24-2023 میں لگ بھگ تین ارب 75 کروڑ ڈالرز کی دالیں درآمد کی جا چکی ہیں۔

اشوک گلاٹی کے مطابق ڈیوٹی فری دالوں کی درآمد سے مقامی سطح پر بہتر ہونے والی پیداوار کو دھچکا لگے گا۔

اس رپورٹ میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔