بھارت میں کرونا وائرس کے مریضوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران تقریباً 70 ہزار افراد میں اس عالمی وبا کی تشخیص ہوئی ہے۔ یہ اب تک کسی ایک روز میں نئے مریضوں کی ریکارڈ تعداد ہے۔
جمعرات کے اعداد و شمار کے بعد بھارت میں کرونا کے مریضوں کی مجموعی تعداد 28 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جب کہ مزید 977 افراد کی اموات کے ساتھ اب تک یہ مہلک وائرس تقریباً 54 ہزار افراد کی زندگیاں نگل چکا ہے۔
حکومت کا کہنا ہے کہ نئے مریضوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ میں اضافہ ہے۔ لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتیں اسے ناقص انتظامات کا سبب قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ حکومت وائرس پر قابو پانے میں ناکام ہو گئی ہے۔
جمعرات کو جاری کیے گئے وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 69651 افراد میں کرونا ٹیسٹ مثبت پایا گیا۔ اس طرح مریضوں کی مجموعی تعداد لگ بھگ 28 لاکھ 37 ہزار ہو گئی ہے۔ جب کہ 977 مریضوں کی اموات کے ساتھ یہ تعداد 53866 ہو گئی ہے۔
اس وقت بھارت میں کرونا کے فعال کیسز کی تعداد 6 لاکھ 86 ہزار ہے جب کہ تقریباً 21 لاکھ مریض صحت یاب ہو چکے ہیں۔ بھارت میں مریضوں کی صحت یابی کی شرح تقریباً 74 فی صد ہے۔
ملک میں پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ ٹیسٹ بھی کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں نو لاکھ افراد کے کرونا انفکشن کی جانچ کے ٹیسٹ کیے گئے۔ تین روز قبل تک ٹیسٹنگ کی مجموعی تعداد تین کروڑ سے تجاوز کر چکی تھی۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران مہاراشٹر، آندھرا پردیش، کرناٹک، تمل ناڈو اور اترپردیش میں سب سے زیادہ کرونا کے مریض رپورٹ ہوئے۔
متعدد ریاستوں میں مختلف اوقات میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مگر اب چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں میں بھی وائرس پھیل رہا ہے جو کہ حکومت کے لیے باعثِ تشویش ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ شہروں اور دیہات کے درمیان سفر کرنے والے افراد وائرس کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی کا بڑا سبب بن رہے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت کی مسلح افواج بھی کرونا کی وبا سے محفوظ نہیں رہیں۔ انگریزی روزنامے 'انڈین ایکسپریس' کے مطابق اب تک فوج کے 12 ہزار 600 حاضر سروس ملازمین میں کرونا ٹیسٹ مثبت پایا گیا ہے۔ جس سے اب تک 25 فوجیوں کی ہلاکت بھی ہو چکی ہے اور تقریباً پانچ ہزار اب بھی اسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں۔
وزیرِ داخلہ امت شاہ بھی کرونا وائرس سے متاثر ہوئے تھے۔ گزشتہ ہفتے گڑگاؤں کے میدانتا اسپتال میں ان کا علاج کیا گیا جہاں چند روز کے بعد ان کی رپورٹ منفی آئی تھی۔ بعد ازاں وہ اپنی رہائش گاہ پر آئسولیشن میں تھے مگر تھکاوٹ اور بدن کے درد کی شکایت پر انہیں نئی دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں داخل کرایا گیا جہاں ان کی حالت مستحکم بتائی جا رہی ہے۔
مرکزی وزیر گجیندر سنگھ چوہان بھی کرونا مثبت پائے گئے ہیں اور اسپتال میں داخل ہیں۔ انہوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ گزشتہ دنوں میں جو لوگ ان سے رابطے میں آئے ہوں، وہ سب اپنا ٹیسٹ کرا لیں۔ اس سے قبل ایک اور مرکزی وزیر ارجن میگھوال بھی کرونا مثبت پائے گئے تھے۔
اترپردیش حکومت کے دو وزیر کملا رانی ورون اور سابق کرکٹر اور وزیر چیتن چوہان کی کرونا وائرس سے جان جا چکی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے الزام عائد کیا ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت کرونا پر قابو پانے میں ناکام ہے۔ ریاست میں ہفتے اور اتوار کو مکمل لاک ڈاؤن نافذ رہتا ہے۔
بھارت میں کرونا مریضوں کی تعداد میں اضافہ کے سلسلے میں حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ زیادہ ٹیسٹنگ ہو رہی ہے اس لیے مریض بھی زیادہ سامنے آ رہے ہیں۔
آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) کے ڈائریکٹر اور کرونا وائرس کے ماہر ڈاکٹر رندیپ گلیریا اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ مریضوں کی زیادہ تعداد کی وجہ زیادہ تعداد میں ٹیسٹنگ کا ہونا ہے۔
انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ صورتِ حال سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹیسٹنگ جتنی زیادہ ہو گی، مریضوں کی تعداد اتنی ہی بڑھے گی اور ہم ان تمام لوگوں کو الگ تھلگ کر کے ان کا علاج کر سکیں گے۔
لیکن کرونا وائرس کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والے ایک تجزیہ کار آلوک موہن حکومت کے انتظامات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے صحیح حکمتِ عملی اختیار کی ہوتی تو مریضوں کی تعداد اتنی نہ ہوتی۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی بد انتظامی کی وجہ سے ہی کرونا مریضوں کا علاج کرنے والے 200 سے زائد ڈاکٹر خود کرونا کا شکار ہو کر اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
آلوک موہن کے بقول مرکزی وزرا اور ریاستی حکومتوں کے وزرا بھی بھی کرونا کے شکار ہو رہے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں اترپردیش کے دو وزرا کی اموات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دیگر ریاستوں میں بھی وزرا اس مرض سے متاثر ہو رہے ہیں۔ جھارکھنڈ کی پوری حکومت قرنطینہ میں ہے۔ مہاراشٹر، مغربی بنگال، تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور اترپردیش سمیت دیگر متعدد ریاستیں ایسی ہیں جہاں کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ کرونا کے مریضوں اور کرونا سے ہونے والی اموات کے صحیح اعداد و شمار سامنے نہیں آ رہے۔
آلوک موہن کے بقول وزیرِ اعظم نریندر مودی کا یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ حکومت کے بروقت اقدامات کی وجہ سے کرونا پر قابو پایا جا سکا ہے۔ ان کے بقول حقیقت یہ ہے کہ یہ وائرس بھارت میں بے قابو ہو چکا ہے۔
خیال رہے کہ وزیرِ اعظم نریندر مودی کئی بار اپنے بیانات میں یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ بھارتی حکومت نے کرونا وائرس کے وبائی شکل اختیار کرنے سے قبل ہی 21 روز کا لاک ڈاؤن کر دیا تھا اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا، جس کی وجہ سے حکومت کو انتظامات کرنے کا موقع ملا اور ہم کرونا کو پھیلنے سے روکنے میں کامیاب ہو سکے۔
ایک میڈیکل پریکٹیشنر ڈاکٹر معراج احمد بھی وائرس کے پھیلنے کو حکومت کی مبینہ ناقص پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے چھوٹے ملکوں نے صحیح حکمتِ عملی اختیار کی جس کی وجہ سے وہ اس وائرس پر بڑی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فروری میں جب گجرات میں نمستے ٹرمپ پروگرام ہوا تھا، اس کے بعد کرونا کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہوا اور وہ اضافہ اب تک جاری ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے بھی کوئی احتیاط نہیں برتی جاتی۔ تمام حکومتی پروگرام بھی چل رہے ہیں اور لاک ڈاؤن بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
ادھر کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپریل سے اب تک ایک کروڑ 89 لاکھ ملازمت پیشہ افراد کی نوکریاں جا چکی ہیں۔
معیشت کا جائزہ لینے والے ادارے 'سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی' کے مطابق صرف جولائی میں 50 لاکھ افراد کی ملازمتیں ختم ہوئی ہیں۔
ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق اس دوران یومیہ مزدوری کرنے والے 68 لاکھ افراد کا روزگار ختم ہو گیا۔ لاک ڈاؤن کے اعلان کے بعد متعدد کمپنیوں نے اپنے یہاں ملازموں کی تعداد میں تخفیف اور باقی رہ جانے والے کارکنوں کی تنخواہوں میں کمی کر دی۔