کشمیر کے مسئلے پر تمام بڑی سیاسی پارٹیوں کے اعلیٰ رہنماؤں پر مشتمل کُل جماعتی اجلاس ختم ہوگیا لیکن اِس میں اِس بات پر اتفاقِ رائے نہیں ہوسکا کہ فوج کو خصوصی اختیارات دینے والے‘ آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ’ کو ہٹایا جائے کہ نہیں۔
وزیرِ اعظم کی رہائش گاہ پرپانچ گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک جاری رہنے والے اِس اجلاس میں یہ طے پایا کہ ایک کُل جماعتی وفد کشمیر کا دورہ کرے گا۔ تاہم، تاریخ کا تعین نہیں ہو سکا ۔
وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے اجلاس کا افتتاح کرتے ہوئےاِس بات کا اعادہ کیا کہ اِس مسئلے کے حل اور امن و امان کے قیام کے لیے بات چیت ہی واحد راستا ہے، جب کہ کانگریس صدر سونیا گاندھی نے کہا کہ وادی کےنوجوانوں کی خواہشوں اورامنگوں کو پورا کیا جانا ضروری ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ‘ہمیں یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے اپنے لوگ ہم سے ناراض کیوں ہیں؟’
سونیا گاندھی نے مزید کہا کہ بھارتی کشمیر میں روزگار کےمواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہاں کے نوجوانوں کے دل جیتے جاسکیں۔
اجلاس کے بعد پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی رہنما محبوبہ مفتی نے اِس بات پر زور دیا کہ مذاکرات غیر مشروط ہونے چاہئیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ہم نے اِس بات پر زور دیا ہے کہ حکومت اور علیحدگی پسند، دونوں جانب سے کوئی بھی شرط نہیں رکھی جانی چاہیئے اور انسانی نقطہٴ نظر سے اِس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہیئے۔