بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر نے ہفتے کے روز کہا کہ بڑی تعداد میں مبینہ عسکریت پسند بھارتی کنڑول کے کشمیر میں گھسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ خطے میں گڑ بڑ پیدا کرنا چاہتا ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ لگ بھگ 230 دہشت گرد کشمیر کے مختلف حصوں میں داخل ہونے کے لیے تیار ہیں۔
انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ بڑی تعداد میں ہتھیار اسمگل کر کے کشمیر میں پہنچائے جا رہے ہیں اور لوگوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ بدامنی پھیلائیں۔
فوجی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اس اطلاع کا ذریعہ پکڑے جانے والے وائرلس سگنلز اور انیٹلی جینس رپورٹس ہیں۔
بھارت ایک طویل عرصے سے پاکستان پر یہ الزام لگاتا آ رہا ہے کہ وہ کشمیر میں علیحدگی پسندی کی شورش پیدا کرنے کے لیے عسکریت پسندوں کو تربیت دیتا ہے اور ان کی مدد کرتا ہے۔ اسلام آباد یہ الزام کو مسترد کرتا ہے۔
اپنے واحد مسلم اکثریتی علاقے کو مرکز کے براہ راست کنٹرول میں لانے کے ایک مہینے کے بعد بھی کشمیریوں کو مسلسل آمد و رفت، ٹیلی فون اور دیگر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بھارت نے وہاں مزید فوجی دستے تعینات کر دیے ہیں تاکہ پرتشدد مظاہروں کو روکا جا سکے۔
اجیت دوول کا کہنا ہے کہ ہم کشمیر میں عائد تمام پابندیاں اٹھانا چاہتے ہیں لیکن اس کا انحصار پاکستان پر ہے۔ اگر پاکستان ذمہ داری کا مظاہرہ کرتا ہے اور دہشت گرد دراندازی نہیں کرتے اور سیکورٹی خطرات پیدا نہیں کرتے اور پاکستان اپنے کارندوں کو پیغامات بھیجنے بند کر دیتا ہے تو ہم پابندیاں اٹھا سکتے ہیں۔
انہوں نے سیب کے ایک تاجر پر حملے کا حوالہ دیا جس میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے تاجر اور ایک دو سالہ لڑکی سمیت تین افراد کو زخمی کر دیا تھا۔ یہ واقعہ ہفتے کے روز سوپور میں پیش آیا جسے مقامی پولیس نے ایک دہشت گرد کارروائی کا نام دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی فوج کے ترجمان ادارے آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارتی فوج دو پاکستانیوں کو، جو غلطی سے لائن آف کنٹرول عبور کر کے دوسری جانب چلے گئے تھے، حقائق کو مسخ کرتے ہوئے انہیں دہشت گردوں کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ دونوں کسان ہیں اور سرحد کے قریب گھاس کاٹتے ہوئے غلطی سے دوسری جانب چلے گئے تھے۔
بھارتی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ کشمیر کے 90 فی صد علاقے میں سے دن کے وقت تمام پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں اور سینکڑوں سکولوں اور سرکاری دفتروں کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے۔
لیکن تعلیمی اداروں میں حاضری برائے نام ہے۔ سری نگر اور دیگر کئی علاقوں میں زیادہ تر کاروباری مراکز اور دکانیں بند ہیں اور سڑکیں اور گلیاں سنسان پڑی ہیں جو بھارتی عہدے داروں کی جانب سے صورت حال معمول پر لانے کی کوششوں کی نفی کرتی ہیں۔