بھارت نے جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید، ان کے نائب ذکی الرحمن لکھوی، جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر اور انڈر ورلڈ ڈان داؤد ابراہیم کو غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق ترمیم شدہ قانون یو۔ اے۔ پی۔ اے۔ کے تحت انفرادی دہشت گرد قرار دے دیا ہے۔
گزشتہ ماہ پارلیمنٹ سے منظور کیے جانے والے اس ترمیمی قانون کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کچھ لوگوں کو انفرادی دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل اس قانون کے تحت صرف تنظیموں کو ہی دہشت گرد قرار دیا جا سکتا تھا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ ترمیم بین الاقوامی ضابطوں اور قوانین کو ذہن میں رکھ کر کی گئی ہے۔ اس کے مطابق اقوام متحدہ بھی انفرادی اشخاص کو دہشت گرد قرار دیتی ہے۔
پارلیمنٹ نے دو اگست کو مذکورہ قانون منظور کیا تھا۔
اس سلسلے میں حکومت نے جو گزٹ نوٹی فکیشن جاری کیا ہے اس میں کہا گیا ہے کہ مسعود اظہر کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔ جیش محمد دہشت گردوں کی بھرتی کرتی ہے اور لوگوں کو دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے اکساتی ہے۔ مسعود اظہر پر کئی دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔
حافظ سعید کے بارے میں جاری ہونے والے نوٹی فکیشن میں ممبئی حملوں، لال قلعہ پر حملے اور رامپور کے سی آر پی ایف کیمپ پر ہونے والے حملے کا ذکر کیا گیا ہے۔
ان کے خلاف کئی کیس رجسٹر کیے گئے ہیں اور این آئی اے نے ان کے خلاف تحقیقات بھی کی ہیں اور فرد جرم بھی داخل کی ہے۔
اسی طرح ذکی الرحمن لکھوی پر کئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگایا گیا ہے۔
داؤد ابراہیم کے بارے میں 1993 میں ممبئی میں ٹرینوں میں ہونے والے سلسلے وار بم دھماکوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ داؤد ابراہیم کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ انھیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل آئی ایس اور القاعدہ پابندی کمیٹی نے ان پر پابندی لگائی ہے۔
اس سلسلے میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے ٹویٹر پر بھارتی حکومت کے اس اقدام کو سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم مولانا مسعود اظہر، حافظ سعید، ذکی الرحمن لکھوی اور داؤد ابراہیم کو دہشت گرد قرار دینے پر بھارت کے ساتھ ہیں اور اس نئے قانون سے امریکہ اور بھارت کے درمیان دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے مشترکہ امکانات میں اضافہ ہو گا۔
جب اس قانون میں ترمیم کی جا رہی تھی تو اپوزیشن کی جانب سے اس کی سخت مخالفت کی گئی تھی اور یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ حکومت کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے سکتی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کو اندیشہ ہے کہ حکومت اس قانون کے تحت انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے اور انھیں انفرادی دہشت گرد قرار دے سکتی ہے۔
لیکن اب جب کہ ان افراد کو انفرادی دہشت گرد قرار دیا گیا ہے تو حکومت اس سے اپوزیشن کے اندیشوں کو دور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔