بھارتی وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے ملک کے اینٹی کرپشن چیف کے عہدے پر کی جانے والی غلط نامزدگی کی ذمہ داری قبول کرلی ہے جسے گزشتہ روز ملک کی سپریم کورٹ نے غیرقانونی قرار دے دیا تھا۔
شمالی ریاست جموں کے دورہ پر آئے بھارتی وزیرِاعظم نے جمعہ کے روز صحافیوں سے گفتگو کے دوران کہا کہ وہ عدالت کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں اور ان کے بقول "اس طرح کے فیصلے نہیں دوہرائے جانے چاہئیں"۔
بھارتی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز سرکاری اداروں میں بدعنوانی پر نظر رکھنے والے ادارے "سینٹرل ویجیلنس کمیشن (سی وی سی)" کے سربراہ کے طور پر پی جے تھامس کی تقرری کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلہ میں تھامس کے خلاف 1992ء میں درج کرائے گئے بدعنوانی کے اس مقدمے کو بنیاد بنایا تھا جس میں ان پر ملائیشیا سے مہنگے داموں پام آئل درآمد کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ تھامس اس وقت کیرالا کی ریاستی حکومت میں ایک اہم عہدے پر فائز تھے۔
تھامس مذکورہ معاملے میں کسی قسم کی بدعنوانی کے ارتکاب کی تردید کرتے ہیں جبکہ سرکار کی جانب سے بھی کئی برس گزر جانے کے باوجود مقدمہ پر کوئی کاروائی عمل میں نہیں آئی ہے۔
تاہم بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا تھا کہ "سی وی سی " کے سربراہ کے عہدے کیلیے ایسے شخص کو مقرر کیا جانا چاہیے جو ایماندار اور بے داغ ہو۔ عدالت نے کہا کہ تھامس کی تقرری کے وقت اس اہم پہلو کو نظر انداز کیا گیا کہ ان کے خلاف بدعنوانی کا مقدمہ درج ہے۔
بھارت اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تھامس کی تقرری کی مخالفت کی گئی تھی تاہم وزیرِاعظم من موہن سنگھ کی حکومت ان کی تقرری کا دفاع کرتی آرہی تھی۔
عدالت کی جانب سے اس اہم عہدے پر کی جانے والی تقرری غیر قانونی قرار دیے جانے کے بعد حکمران جماعت کانگریس مزید مشکلات میں گھر گئی ہے۔
کانگریس کی حکومت کو پہلے ہی ٹیلی کمیونیکیشن کمپنیز کو لائسنس کی فروخت اور گزشتہ سال ہونے والے دولتِ مشترکہ کھیلوں کے مقابلوں کیلیے دیے جانے والے ٹھیکوں میں بے ضابطگی سمیت کئی کرپشن اسکینڈلز کے باعث بڑے پیمانے پر عوامی اور سیاسی تنقید کا سامنا ہے۔